پانی اور صحت کی فراہمی کے لیے جوکرنا پڑا کریں گے، چیف جسٹس پاکستان


کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ پانی اور صحت کی فراہمی کے لیے جوکرنا پڑا کریں گے جب کہ ہم صرف وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو ذمےدارسمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی کی سنگین صورتحال اور کراچی میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت کررہا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی، اسباب بھی بتائے، وزیراعلی سندھ کو بھی اس لیے بلایا کہ ٹائم فریم دیں لیکن سندھ حکومت نے واٹر کمیشن کی رپورٹ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دریاؤں اور نہروں میں زہریلاپانی ڈالا جارہا ہے، وہی پانی شہریوں کو پینے کے لیے دیا جا رہا ہے، پنجاب میں بھی پانی کا معاملہ اٹھایا ہے، اسے حل کرکے رہیں گے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ زہریلے پانی سے شہریوں میں پیچیدہ بیماریاں پھیل رہی ہیں، ہیپاٹائیٹس سی سمیت دیگر بیماریاں جنم لے رہی ہیں، پانی زندگی ہے، پانی ہی صاف نہیں تو کیا زندگی رہے گی۔

ایم ڈی واٹر بورڈ پر اظہار برہمی

چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ شہر میں واٹر ٹینکر کیسے چل رہے ہیں جس پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ شہر کا 30 فیصد علاقہ واٹر بورڈ کے انڈر نہیں آتا اس لیے کچھ علاقوں میں ٹینکر فراہم کیے جاتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر بات کا واٹر بورڈ کے پاس جواب ہے، شہر کراچی میں پانی بیچا جارہا ہے اور ٹینکر مافیا کو مضبوط کیا جارہا ہے، یہ سب کمائی کا دھندا ہے، واٹر بورڈ کے لوگ ماہ وار پیسے وصول کرتے ہیں آپ لوگ پانی دیتے نہیں، لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔

چیف جسٹس نے اے جی سندھ سے استفسار کیا کہ بتائیں، کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا کب سے اور کیسے چل رہا ہے، بتایا جائے واٹر ٹینکر مافیا کے خلاف کیا کارروائی کی۔

چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے گھر کے نلکے میں پانی آئے تو کیا بے قوف ہوں جو 3 ہزار کا ٹینکر منگواؤں گا، ذمےداری ادا نہ کرسکوں تو اس عہدے پر رہنا ضمیر کےخلاف ہوگا، آ پ سوچیں کہ نتائج نہیں دے سکتے تو عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں۔

معزز کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں لوگوں کو صاف ستھرا پانی ملے،آپ کے منصوبے اور پروگرام میری رٹائرمنٹ کے بعد کے ہیں، مجھے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے6 ماہ میں پانی کےمسئلے کاحل چاہیے‘۔

بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کا کام ہے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کا کام ہے، گندگی کے ڈھیراور بیماریاں جنم لے رہی ہیں، بوتلوں میں غیر معیاری پانی فروخت ہورہا ہے، ایک نلکا لگا کر بوتل بھر کر پانی کیسے فروخت ہورہا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے اے جی سندھ سے استفسار کیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟

انہوں نے کہا سندھ حکومت پر واضح کرناچاہتے ہیں کہ توہین عدالت کا آپشن موجود ہے، ہم یہاں سے اٹھ کر نہیں جانے والے، یہ کام تو آپ اور آپ کی حکومت کو کرناچاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے اے جی سندھ سے دریافت کیا کہ پانچ دسمبر سے آج تک کیا کام کیا بتایا جائے۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدالت کو حلفے نامے پر ٹائم فریم چاہیے، بتایا جائے اسپتال، میونسپل اور صنعتی فضلے سے متعلق کیا اقدامات کیے گئے۔

معزز جج نے کہا کہ ’آج طیارے میں لوگوں نے مجھ سے پوچھا جس کے لیے کراچی جارہے ہیں وہ مسئلہ حل ہوسکے گا‘۔

یہ مسئلہ الیکشن سے قبل ہی حل ہونا ہے، جسٹس میاں ثاقب نثار

چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چیف سیکرٹری صاحب، یہ مسئلہ الیکشن سے قبل ہی حل ہونا ہے، عدالت کو صرف یہ بتائیں کون سا کام کب اور کیسے ہوگا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کراچی میں 45 لاکھ ملین گیلن گنداپانی سمندرمیں جارہاہے، کیایہ معمولی بات ہے، جن لوگوں نے کوتاہی برتی انہیں بخشا نہیں جائے گا، چیف سیکرٹری ابھی بتائیں کسے کتنے درجے تنزلی کرنی ہے، سماعت میں وقفےکے بعد کارروائی کاحکم دیں گے۔

اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

چیف سیکریٹری نے بتایا کہ 550ملین گیلن پانی یومیہ کینجرجھیل اور 100ملین گیلن پانی حب ڈیم سے آتا ہے۔

دوران سماعت عدالت میں واٹر بورڈ کی تیار کردہ ویڈیو بھی پیش کی گئی جسے چلانے کے لیے کمرہ عدالت میں پروجیکٹر بھی لگایا گیا۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حلف نامہ دیا گیا تھا، ایس 3 پراجیکٹ جون 2018 میں مکمل ہو گا، ستمبر2017 اور جنوری 2018 میں 2حصے مکمل ہونے تھے، پیشرفت نظر نہیں آرہی، 8 ارب کا پروجیکٹ اب 36 ارب تک پہنچ گیا۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ ’ہمیں نتائج چاہییں،  بنا جواب چیف سیکرٹری اور ایم ڈی واٹر بورڈ کوجانے نہیں دیں گے‘۔

معزز جج نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹینکر مافیا پانی بیچتا ہے اور کمائی ہورہی ہے، جہاں واٹر بورڈ کی لائن نہیں وہاں پانی کے ٹینکر مفت پہنچائیں۔

اس پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنرکی وجہ سےپانی مفت فراہم نہیں کیاجاتا، چیف جسٹس نے کہا کہ دن لگے یا رات کام کرکے دکھائیں، ایک دوسرے پرڈالنےسےکام نہیں چلےگا، بھینسوں کافضلہ نہروں میں چھوڑ اجارہا ہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہے، کبھی آپ نے غور کیا۔

ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق ہم کام کررہےہیں، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری ہدایت سے پہلےآپ لوگ سورہے تھے۔

سندھ حکومت پر توہین عدالت کا آپشن واضح کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ پانی کی لائنوں کی صورتحال خراب ہے، آپ نے اب تک کیا کام کیاہے۔ 

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بجٹ میں سب چیز وں کے لیے رقم جاری کی جاتی ہے لیکن کام نہیں ہوتا۔

ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت میں کہا کہ ’ہم سنجیدگی سے کام کررہے ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی سنجیدگی باتوں سے نظر نہیں آرہی کام سےکیسے پتا چلے گا، میں چیف سیکرٹری کو اورکوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھے بتایا نہ جائے کہ کام کب ہوگا‘۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’بڑے اعتراضات کیے گئے کہ چیف جسٹس میو اسپتال کیوں گئے، آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمےداری ہے، صاف کہنا چاہتا ہوں مجھے لیڈری کا کوئی شوق نہیں، جس کومجھ پرتنقید کرنی ہےکرلے‘۔

معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میواسپتال میں وینٹی لیٹرکی سہولت نہیں تھی، میواسپتال کادورہ انسانی جانوں کی تحفظ کے لیےکیا۔

چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے مکالمہ کیا کہ صرف بچوں کو پجیرو دینا ہی کافی نہیں ہے، کیا آپ نہیں چاہتے؟ اپنے بچوں کواچھا ملک دے کر جائیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی اور صحت کی فراہمی کے لیے جوکرنا پڑا کریں گے، ہم نے ہمیشہ چیف سیکر ٹری کے عہدےکی تکریم برقرار رکھی، ہم کسی واٹر بورڈ اور کسی سیکر ٹری کو نہیں جانتے، ہم صرف وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو ذمےدارسمجھتے ہیں، نتائج چاہتے ہیں۔

سندھ میں فراہمی آب: ٹاسک فورس کی مفصل رپورٹ

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونے انسانی جانوں کے لیے خطرناک حد تک مضر ہیں جب کہ کراچی میں 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لیے نقصان دہ ہونے کا انکشاف ہوا۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کے پانی کے 33 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا جب کہ ٹھٹھہ میں 75 فیصد پانی کےنمونوں میں انسانی فضلہ ملا جو کہ صوبے بھر میں سب سے زیادہ مقدار ہے اور سب سے کم انسانی فضلے کے نمونے تھرپارکر کے پانی میں پائے گئے۔

رپورٹ میں میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈوالہ یار 23، بدین 33، جامشورو 36، ٹنڈو محمد خان 30 ، لاڑکانہ 60 اور حیدرآباد میں 42 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں اسپتالوں میں فراہم کیے جانے والا پانی بھی انتہائی مضر صحت ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے اور اسپتالوں کو فراہم کردہ 88 فیصد پانی کے نمونے مضر صحت نکلے جب کہ ان حاصل نمونوں میں سے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے۔

مزید خبریں :