خیبرپختونخوا حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے میں سنگین بے قاعدگیاں

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت کی سرکاری دستاویزات نے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے حوالے سے عمران خان کے دعوئوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پیش کردہ اعداد و شمار کو غلط قرار دیا ہے جبکہ ساڑھے 12ارب روپے کے منصوبے کے اخراجات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مختصر وقت میں صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک ارب 18 کروڑ پودے لگائے ہیں جس کو وہ ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے تاہم اب سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی تعداد میں پودے کیسے لگائے جا سکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق 65 فیصد یعنی 75 کروڑ 90 لاکھ پودے قدرتی طور پر جنگلات میں اُگے ہیں‘ شجر کاری کے ذریعے 20 فیصد یعنی 24 کروڑ پودے لگائے گئے‘ 13 فیصد یعنی 15کروڑ 30 لاکھ پودے لوگوں میں مفت بانٹے گئے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف فورمز پر دعویٰ کیا کہ بڑی تعداد میں پودے صوبے کے مختلف علاقوں میں لگائے گئے ہیں جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے مختلف مواقع پر پودوں کی تعداد لگائے گئے، پودوں سے 5 گنا زیادہ ہونے کا دعویٰ کیا جو کہ حقیقت کے برعکس ہے‘ سرکاری دستاویزات کے تحت منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس پر اعتراضات اٹھائے ہیں‘ ساڑھے12 ارب روپے کے پراجیکٹ میں نرسریوں کے انتخاب پودوں کی خریداری ‘ تقسیم اور شجرکاری کے حوالے سے بھی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ 

سارے عمل کی نگرانی محکمہ جنگلات کا نچلا اسٹاف ہی کرتا رہا جس نے معاملات کو مشکو ک بنا دیا ہے، 300سے زائد اہلکاروں کو کرپشن‘ بدعنوانی‘ بے قاعدگیوں کے باعث معطل اور برطرف بھی کیاگیا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کیا اور تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ بھی کی‘ اس حوالے سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی حکومتی اعداد وشمار پر اپوزیشن نے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ 

محکمہ انسداد رشوت ستانی کےاس وقت کے ڈائریکٹر ضیاء اللہ طورو نے بلین ٹری سونامی کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر سابق چیف سیکرٹر ی کے بھائی کے خلاف کارروائی کی تو انھیں عہدے سے ہٹا کر کھڈے لائن لگادیا گیا۔ 

سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا حیدر ہوتی نے کہا ہےکہ عمران خان کبھی سچ نہیں بولتے، یہ مالم جبہ طرز کا میگا اسیکنڈل ہے،نیب کو معاملہ کی تحقیقات کرنی چاہیے جب کہ سیکریٹری جنگلات کا کہنا ہے کہ یہ ایک شفاف منصوبہ ہے،کئی اداروں نے پراجیکٹ کی مکمل جانچ پڑتال کی ہے۔ 

ادھر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہےکہ خیبر پختونخوا حکومت نے مشاورت کےلئے ڈیڑھ کروڑ دئیے، منصوبے کا صرف 20 فیصد چیک کیا، سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے بھر میں بلین ٹری سونامی کے تحت صرف 24کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جبکہ 15 کروڑ 30 لاکھ تقسیم کئے گئے‘‘ پودوں کی خریداری کیلئے ٹینڈر جاری نہیں کیاگیا بلکہ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر 6 اور 9 روپے کے حساب سے مہنگے داموں پودے خریدے گئے۔

مارکیٹ میں نرسری مالکان پودے مختلف قیمتوں پر فروخت کر تے ہیں تاہم ان کا موقف ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں پودوں کیلئے ریٹ انتہائی کم بھی کیا جاتا ہے‘ محکمہ جنگلات نے جو پودے زیادہ تعداد میں لگائے ان کی مارکیٹ میں قیمت 2سے 5روپے کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ 

سیکرٹری جنگلات نذر شاہ نے اعداد وشمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ نہیں کیا ‘ صوبے میں 24کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جبکہ 15کروڑ 30 لاکھ پودے مفت لوگوں میں شجری کاری کیلئے بانٹے گئے ہیں جبکہ 73 کروڑ 20 لاکھ پودے نوپود اور 2 کروڑ 70 لاکھ خودرو ہیں جو جنگلات میں حکومتی اقدامات کی بدولت خود بخود اگ آئےجن کو ملا کر ایک ارب 18کروڑ تعدادبتائی جاتی ہے۔ 

پراجیکٹ ڈائریکٹر طہماسپ نے اعتراف کیا کہ مارکیٹ میں پودوں کی قیمت کم ہو سکتی ہے لیکن چونکہ حکومت نے براہ راست عوام سے خریدنے کی ہدایت کی تھی لہٰذا ٹینڈر کے بغیر 6 اور 9 روپے میں عام لوگوں سے تمام پودے خریدے گئے جوکہ توانا تھے۔ 

نرسریوں میں کمزور اور خراب پودے بھی ہوتے ہیں‘ اے این پی کے سابق وزیر اعلیٰ اور صوبائی صدر حید رخان ہوتی نے بلین ٹری سونامی کو ایک جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کبھی سچ نہیں بولا ہمیشہ جھوٹ کے ذریعےعوام کو گمراہ کیا ہے، نیب فوری طور مالم جبہ کی طرح اس سکینڈل کی تحقیقا ت کرےاور ذمہ داروں کو سزا دے ۔

اطلاعات تک رسائی کے قانون 2013ء کے تحت حاصل کردہ دستاویزات میں ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ حقائق کے برعکس نکلا‘ محکمہ جنگلات کی دستاویزات کے مطابق 2014ء میں بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا جس کے تحت صوبہ بھر میں ایک ارب پودے لگانے کا اعلان کیاگیا ۔

بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے خط نمبر 2920/BTAP مورخہ 18 دسمبر 2017ء کے مطابق 40 فیصد پودوں کی بووائی کی گئی جبکہ 60 فیصد پودے بذریعہ قدرتی نوپود آئے ہیں‘ قدرتی طور پر اگنے والے پودوں کی تعداد 73کروڑ 20لاکھ ہے جو 309683ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

یوں شجرکاری کے ذریعے صرف 24کروڑ پودے بنجر زمینوں پر لگانے کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے جس کی آزاد ذرائع سے باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی ‘ریکارڈ کے مطابق 15کروڑ 30لاکھ پود ے لوگوں میں مفت بانٹے گئے تاکہ وہ اپنے گھروں میں شجرکاری کرسکیں جن میں سفیدہ، بیر، لاچی اور شیشم شامل تھے۔ 

دو کروڑ 70 لاکھ خودرو پودے نکلے ‘27 ٹن بیج ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھینکا گیا‘ 24کروڑ پودوں کے لئے کیلئے 80 فیصد پودے پرائیویٹ سیکٹر سے بذریعہ نرسری حاصل کئے گئے ‘سرکاری سطح پر 20 فیصد نرسریاں اگائی گئیں‘نجی نرسریوں سے فی ٹیوب پودا 6روپے جبکہ چوڑی پتی والا فی پودا 9روپے کے عوض خریدا گیا۔

پودوں کی خریداری کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ بلین ٹری سونامی کیلئے کوئی سرکاری ٹینڈرہی طلب نہیں کیا گیا تھا‘ دستاویزات کے مطابق حکومت نے پودوں کی خریداری کیلئے 6اور 9روپے کا رخ مقرر کر رکھا تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں بڑی تعداد میں پودے خریدنے کی صورت میں ان پودوں کے نرخ 3گنا کم تھے۔

 البتہ پودوں کی خریداری کیلئے پی سی ون کے تحت کچھ شرائط رکھی گئیں جن کے مطابق نرسری لگانے والا مقامی باشندہ ہو‘ اس کی زمین اپنی ہو‘نرسری اگانے کی مکمل سہولیات میسر ہوں‘اس کے علاوہ پودوں کا نرخ ایک ہی ہونے کی وجہ سے بڑے زمینداروں کو بھی پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ‘ مجموعی طور پر 13260 افرادسے پودے خریدے گئے جنھوں نے اپنی نرسریاں لگائیں۔ 

دستاویزات کے مطابق 25ہزار پودوں سے لیکر بعض نرسریوں سے 10 لاکھ تک پودے خریدے گئےیوں بڑے زمینداروں اور منظور نظر افراد نے خاندان کے مختلف افراد کے ناموں پر پودوں کے بڑے آرڈر حاصل کئے جن کی بازگشت اسمبلی میں بھی گونجتی رہی، پودوں کی خریداری اور دوبارہ اگانے کا عمل بھی مشکوک رہا کیونکہ اس کام کیلئے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی تھی بلکہ محکمہ کا ایک فارسٹر یا فارسٹ گارڈ پودے خریدنے اور دوبارہ لگانے کا ذمہ دار تھا۔

بلین ٹری سونامی کے پہلے پی سی ون کے تحت کسی کو بھی چار یونٹ یعنی ایک لاکھ سے زائد پودوں کی فراہمی کا آرڈز نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن منظور نظر 100 افراد کو دس دس لاکھ پودوں کی فراہمی کا آرڈر دیا گیا جو قانون کی صریحا خلاف ورزی تھی تاہم میڈیا میں خبریں انے پر پی سی ون میں تبدیلی کرکے ایک لاکھ کی حد کو ختم کردیا گیا۔

محکمہ اینٹی کرپشن نے مردان میں سابق چیف سیکرٹری امجد علی خان کے بھائی ارشد علی خان کے گھر پر چھاپہ مارا جس پر چیف سیکرٹری ناراض ہوگئے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق محکمہ جنگلات نے سب سے زیادہ چیڑ کے پودے 21فیصد یعنی 5کروڑ 90ہزار خریدے اور اُگائے ‘جن کیلئے 6روپے کے حساب سے ادائیگی کی گئی حالانکہ چیڑ کا پودا مارکیٹ میں 4روپے کے حساب سے دستیاب ہے۔ 

اسی طرح لاچی کے پودے 19 فیصد یعنی 4 کروڑ 56 لاکھ خریدے اور لگائے گئے ‘ حکومت نے فی پودا 6روپے کے حساب سے خریدا جبکہ عام مارکیٹ میں لاچی کا 9 انچ کا پودہ 2 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

 محکمہ جنگلات نے 8.35 فیصد پودے ولایتی کیکر کے لگائے ہیں جس کیلئے ادائیگی 9 روپے کے حساب سے کی گئی جبکہ ٹینڈر کی صورت میں 2 روپے کے حساب سے پودے مل سکتے تھے‘ اسی طرح عام کیکر کے 7 فیصد پودے یعنی ایک کروڑ 68 لاکھ پودے 9روپے فی پودا کے حساب سے خریدے گئے جو بازار میں 2 روپے کے حساب سے دستیاب ہیں۔

سفیدہ کے پودے پراجیکٹ میں 6.64 فیصد یعنی ایک کروڑ 59لاکھ 4ہزار لگائے گئے جن کیلئے 9 روپے کے حساب سے ادائیگیاں کی گئیں‘ اس قسم کا پودا بازار میں 2 یا اڑھائی روپے میں پودا دستیاب ہے۔ 

پھولائی کے پودے 4 فیصد یعنی 96 لاکھ 6 روپے کے عوض خریدے گئے جن کی بازار میں قیمت 3روپے بتائی جاتی ہے‘ پراجیکٹ میں 4فیصد 96لاکھ پودے ٹالی کے خریدے گئے جن کیلئے فی پودا 6 روپے ادا کئے گئے جبکہ بازار میں ٹالی کا 9 انچ کا پودا تین روپے میں دستیاب ہے۔ 

غز پودے 3فیصد یعنی 72کروڑ لگائے گئے ‘ فی پودا 9روپے کے حساب سے خریدا گیا جبکہ مارکیٹ میں یہ پودا 5روپے میں دستیاب ہے‘ 2 فیصد یعنی 48 لاکھ بیر کے پودے لگائے گئے یہ بھی عام مارکیٹ کے نرخ سے زائد پر خریدے گئے‘ 1.94فیصد دراوا نامی پودے یعنی 47لاکھ لگائے گئے جو 9روپے کے عوض فی پودا خریدا گیا جبکہ مارکیٹ میں یہی پودا 3روپے میں بھی مل سکتا ہے۔

ایپل ایپل نامی پوے 1.81فیصد یعنی 43لاکھ لگے جو فی پودا 9روپے میں خریدا گیا‘ یہی پودا بازار میں صرف2روپے میں مل جاتا ہے‘ 1.69فیصد یعنی 40لاکھ 8ہزار دریک کے پودے لگائے گئے یہ پودا بھی 9روپے میں خریدا گیا جبکہ بازار میں صرف 3روپے میں دستیاب ہے‘ 1.58فیصد دیار کے پودے لگائے گئے جن کی تعداد 38لاکھ بنتی ہے‘ بازار میں 4روپے فی پودا دستیاب ہونے کے باجود پراجیکٹ کیلئے 6روپے میں فی پودا خریداگیا‘ 1.5فیصد کیکر کے پودے یعنی 36لاکھ پودے لگائے گئے جو فی پودا 9روپے میں خریدا گیایہی پودا بازار میں صرف 2روپے میں دستیاب ہے۔ 

سنتہ نامی پودا 1.1فیصد یعنی 26لاکھ لگائے گئے ہیں یہ پودا بھی 9 روپے میں خریدا گیا جبکہ عام مارکیٹ میں اس کا نرخ 2روپے فی پودا ہے‘ ایک فیصد یعنی 24لاکھ چلغوزہ کے پودے لگائے گئے اور فی پودا 6 روپے کے حساب سے خریدا گیا جبکہ عام مارکیٹ میں فی پودا 5 روپے میں دستیاب ہے۔ 

منو‘کچنار ‘ اوک ‘پرشیئن پائن نامی پودے بھی 12‘12لاکھ لگائے گئے ہیں۔جنگ کے سروئے کے مطابق مارکیٹ میں موجود بعض انتہائی مہنگے پودے سرکاری نرسیوں سے حاصل کرکے لگائے گئے جن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ 

سرکاری دستاویزات کے مطابق اس کے علاوہ 27 ٹن بیج ہیلی کاپٹر کے ذریعے 4 روز میں صوبے کے مختلف علاقوں میں پھینکے گئے‘ زیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے ہیلی کاپٹر فراہم کیا اور اس سارے عمل پر 18لاکھ روپے لاگت آئی ‘ یوں تخم پھینکنے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ 3کروڑ 10لاکھ پودے لگے جن کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ 

بلین ٹری سونامی کیلئے 28فارسٹ ڈویژن کا انتخاب کیاگیا جس میں پودے لگائے گئے ‘ اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں 45 لاکھ 25 ہزار ‘ مردان میں 63لاکھ 5ہزار133‘ کوہاٹ میں 84لاکھ 22ہزار 861‘ بنوں میں ایک کروڑ 31لاکھ 98ہزار 475‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک کروڑ 21لاکھ 23ہزار 958‘گلیز میں 7لاکھ 77ہزار 225‘ ہری پور میں 56لاکھ 49ہزار 175‘ ہزار ٹرائبل میں ایک لاکھ 32ہزار 500 لگائے گئے۔

کاغان میں 14لاکھ 9ہزار 865‘ داوڑ واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 44لاکھ 73ہزار 441‘ کنہار واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 75لاکھ 87ہزار671‘ انہار واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 44لاکھ 12ہزار 953‘بونیر واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 88لاکھ 38ہزار 865‘ کوہستان واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 46لاکھ 97ہزار 225‘ اپر کوہستان میں ایک لاکھ 41ہزار 25‘ لوئر کوہستان میں 80ہزار 980‘ سرن میں 2لاکھ 95ہزار 895‘اگرور تناول میں 50لاکھ 24ہزار 550 لگائے گئے۔ 

تورغر میں 9 لاکھ 13ہزار233‘اپر دیر میں ایک کروڑ 43لاکھ 31ہزار 384‘لوئر دیر میں 2کروڑ 14لاکھ 31ہزار 646‘بونیر میں 96لاکھ ‘ الپوری میں ایک کروڑ 2لاکھ 56ہزار825‘ سوات میں ایک کروڑ 12لاکھ 83ہزار500‘ کالام میں 58لاکھ 64ہزار 775‘ دیر کوہستان میں 54لاکھ 38ہزار 11‘ ملاکنڈ میں 2کروڑ 66لاکھ 73ہزار 897 جبکہ چترال میں 69لاکھ 32ہزار 187پودے لگائے گئے۔

 اس کے علاوہ پراجیکٹ کے تحت 42سے زائد اقسام کے پودوں کی بووائی کی گئی۔ محکمہ جنگلات کے مطابق بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کو 3حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک فیز کیلئے الگ سے پی سی ون بنایاگیا اور ہر فیز کیلئے پودوں‘ ماحولیات‘زمینوں سمیت ہر شعبہ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے پورے صوبے کا دورہ کیا اور ایک مفصل رپورٹ مرتب کرکےمحکمہ جنگلات کو دی اور ماہرین کی آراءکے مطابق ہی شجرکاری و تخم ریزی کی گئی۔

نوٹ: یہ خبر 7 فروری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :