17 فروری ، 2018
آصف زرداری پاکستانی سیاست کا ایک ایسا کردار ہیں جن کے تدبر، بصیرت اور دُور اندیشی کوکسی پلڑے میں رکھاجائے توسارے سیاسی مخالفین سے زیادہ بھاری نکلیں۔ایک عام سیاسی کارکن سے بے نظیر بھٹو جیسی نابغہ ء روزگار شخصیت سے شادی تک، وفاقی وزیر بننے سے جیل کا قیدی بننے تک اور پھربے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد’ پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے سے صدرِ مملکت کا منصب سنبھالنے تک۔۔۔ آصف زرداری کے کون کون سے اوصاف ِحمیدہ کا ذکر کیا جائے ۔
کیا اتنا کافی نہیں کہ وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے جمہوری صدر تھے جنہوں نے طاقت کا سرچشمہ ایوانِ صدر کو بنانے کے بجائے سارے اختیارات پارلیمنٹ یعنی عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیے۔
آصف زرداری کے تیر کبھی ٹھیک نشانے پر لگا کرتے تھے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کا نشانہ خطا بھی ہونے لگا ہے۔
یہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ اگرچہ روایت کے عین مطابق ان کے وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکے لیکن آصف زرداری پورے پانچ سال تک ایوانِ صدر میں بیٹھے، ایمبولینس میں نکلنےکا پروپیگنڈہ کرنے والے ہکلاتے اینکرپرسنوں اورکھسیانے کالم نگاروںکی حسرتوں پر مسکراتے رہے۔
جب جانے کا وقت آیا تو نہ صرف گارڈ آف آنر لے کر ایوان ِصدر سے نکلے بلکہ جاتے جاتے ایوانِ بالا کے چیئرمین کی نشست پر رضا ربانی کو بٹھانے کا اہتمام بھی کرتے گئے۔آئین میں ایسی ترمیم بھی کرتے چلے گئے جس سے نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ الگ بات کہ وہ اس بار بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور اب ہر ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں،’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘
نوازشریف کے اس کرب کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس مرتبہ آصف زرداری نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ لندن اور مری میں ہونے والے عہدوپیماں کا پاس نہیں کیا۔آصف زرداری کو اس بات کا دُکھ ہے کہ جب انہوں نے کسی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی تو نوازشریف ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تھے اور اب جب نوازشریف کو نکالا گیا ہے تو آصف زرداری نے اس بات کا بدلہ یوں لیا ہے کہ نہ صرف ان سے ملنے سے انکار کیا ہے بلکہ ان کا اور ان کے وزیروں کا فون تک اٹینڈ نہیں کیا۔ اور تو اور مولانافضل الرحمٰن کی ثالثی بھی کسی کام نہ آئی۔
کیا سیاسی مخالفین کو مخاطب کرنے کا جو نصاب عمران خان نے ترتیب دیا ہے وہی نصاب اب پیپلز پارٹی کی عوامی یونیورسٹی میں بھی پڑھا اور پڑھایا جائے گا؟
دروغ برگر دنِ راوی، آصف زرداری اور نوازشریف میں پیداہونے والی دُوریوں کا سبب چوہدری نثار کے بزدلانہ اقدامات یعنی ایان علی، ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن وغیرہ وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔
چھوٹے میاں صاحب تو آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کیا ہی کرتے تھے لیکن زرداری صاحب کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ آصف زرداری کی گفتگو میں پائی جانے والی ساری شیرینی، تُرشی و تلخی میں بدلتی جارہی ہے۔
شہباز شریف کو تو وہ اب بھی کچھ نہیں کہتے لیکن نوازشریف کو ایسے ایسے ناموں سے یاد کرنے لگے ہیں کہ جو نام زبان پر لانے سے تیس دن ایمان قریب نہیں آتا۔ سیاست جن کا دین و ایمان رہی ہے، اب وہ برداشت، تحمل اور رواداری کے بنیادی سیاسی سبق کو کیوں بھول بیٹھے ہیں۔
ایک دن پہلے انہوں نے ایک ایسے شخص کو بہادر بچہ قرار دیا ہےجس پر کراچی کے سیکڑوں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزم ہے۔
کیا سیاسی مخالفین کو مخاطب کرنے کا جو نصاب عمران خان نے ترتیب دیا ہے وہی نصاب اب پیپلز پارٹی کی عوامی یونیورسٹی میں بھی پڑھا اور پڑھایا جائے گا؟
آصف زرداری کے تیر کبھی ٹھیک نشانے پر لگا کرتے تھے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کا نشانہ خطا بھی ہونے لگا ہے۔ عرفان اللہ مروت کو وہ خواہش کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل نہیں کر سکے۔ انہیں ٹوئٹر بریگیڈ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے۔
اب ایک بار پھر انہیں اسی بریگیڈکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ ایک دن پہلے انہوں نے ایک ایسے شخص کو بہادر بچہ قرار دیا ہے جس پر کراچی کے سیکڑوں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزم ہے۔ پورے سندھ کی پولیس اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔عدالتیں اُس کی راہ تک رہی ہیں۔
ہزاروں قبائلی اُس کی گرفتاری کے لیے کئی دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے رہے لیکن وہ بہادر کسی کے ہاتھ نہ آیا اور آج تک روپوش ہے۔آصف صاحب آپ کے یہ الفاظ بلاول کے لیے ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا لیکن قانون و انصاف سے چھپتے پھرتے راؤ انوار کو بہادر بچہ قرار دینا آپ جیسے زیرک سیاستدان کے لیے جس میں بقول آپ کے بھٹو کی روح آ گئی ہے،کچھ زیادہ زیب نہیں دیتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔