سندھ کے آر او پلانٹس: احتساب اداروں کی توجہ درکار

فوٹو: فائل

سندھ میں حکومت نے پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل کرنے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے لئے دو ہزار سے زائد آر او پلانٹس لگائے گئے اور زیادہ تر پلانٹس صوبے کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں لگائے گئے جہاں مانیٹرنگ کا نظام نہایت کمزور ہے۔

حیرت انگیز طور پر صرف ایک ہی کمپنی نے یہ آر او پلانٹس لگانے کا ٹھیکہ حاصل کیا اور بعد میں اتفاق سے اسی کمپنی کو یہ پلانٹس آپریٹ کرنے اور انہیں مرمت کرنے کا ٹھیکہ بھی مل گیا۔ 

یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ پلانٹس کے ساتھ معاہدے کے تحت آلات اور جنریٹر فراہم ہی نہیں کئے گئے اور کرائے کے جنریٹر بھی لگا کر عارضی طور پر خانہ پری کی گئی۔

محتاط اندازے کے مطابق صوبے میں لگائے گئے ان آر او پلانٹس کی تنصیب کے لئے گزشتہ سالوں میں 40 ارب روپے کے لگ بھگ رقم جاری کی جاچکی ہے، حالیہ دنوں میں یہ کمپنی اپنے مرمت اور آپریشن کی مد میں 80 کروڑ روپے سے زائد واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کررہی ہے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں آر او پلانٹس غیر فعال ہیں، حکومت سندھ لاڈلی کمپنی کو آر او پلانٹ کو سولر سسٹم پر لانے کے لئے بھی تدبیریں کرتی رہی ہے۔

الٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کرنے کے لئے بھی اربوں روپے جاری کئے گئے جن کے اب تک فعال ہونے کی اطلاعات نہیں مل سکیں، ان تمام حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو مانیٹرنگ کرنے والے اور کرپشن پر کام کرنے والے اداروں کو غیر معمولی کارروائی کرنے کی ضرورت پیش آتی لیکن کئی برس تک وہ اس معاملے کے خلاف درخواستیں وصول کر کے اسے سرد خانے کی نذر کرتے رہے۔

نیب کی جانب سے انکوائری کی ابتداء کرنے پر امید کی کرن روشن ہوئی لیکن صورت حال یہ ہے کہ اب تک نیب کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام ہے جب کہ صوبائی اینٹی کرپشن کا محکمہ تو جیسے نابینا اور سماعت سے محروم ہے اور یہ کام بھی عدالت کو کرنا پڑا اور واٹر کمیشن نے اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دی۔ 

واٹر کمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس اقبال کلہوڑو نے صوبے میں 1900 آر او پلانٹس کے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کیں، بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ایک ہی کمپنی کو تمام ٹھیکے دینے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔