Time 15 اپریل ، 2025
بلاگ

سیاسی حلالہ — انتخابی نظام کی شکست یا جمہوریت کا استحصال؟

سیاسی حلالہ — انتخابی نظام کی شکست یا جمہوریت کا استحصال؟
ہر جماعت آخرکار اپنے "مسیحا" کی تلاش میں اسی طاقت کے محور کی طرف جھک جاتی ہے، جو غیرجمہوری ہاتھوں سے چلا آ رہا ہوتا ہے/فوٹوفائل

ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے، تب سے اب تک یہ عمل جاری ہے، اس دوران اسمبلیاں بنتی اور ٹوٹتی رہیں کبھی مارشل لا، کبھی ایمرجنسی اور کبھی کوئی نیا بہانہ بنا کر جمہوری گاڑی کو زبردستی پٹری سے اتار دیا گیا۔

2002 کے بعد گو کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرتی رہیں لیکن حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے ایسے ایسے الزامات تراشے گئے کہ وزرائے اعظم کو بھری بازار میں رسوا کیا گیا، 1970 سے 2024 تک ملک میں12 عام انتخابات ہو چکے ہیں لیکن جمہوریت اور اس کے ادارے ہمیشہ کسی ان دیکھے خطرے کے نشانے پر رہے۔

’ ایک مرد، ایک ووٹ‘  کا عمل بظاہر جاری ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جس پودے کو جمہوریت کہا جاتا ہے، وہ کہاں پروان چڑھا؟ اس کی آبیاری عوام نے نہیں، کسی اور نے کی — اسی لیے یہ نظام ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

1970 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 57 لاکھ تھی، عوام نے اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا، تمام جماعتوں نے اپنی حیثیت کے مطابق شرکت کی اور سب نے اس نظام سے فائدہ بھی اٹھایا مگر پھر وہی چکر: انتخابات ہوتے ہیں، اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، اقتدار ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے اور پھر وہیں لوٹ آتے ہیں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا — الزام تراشی، کردار کشی، اور اقتدار کی دوڑ۔

ہر جماعت آخرکار اپنے "مسیحا" کی تلاش میں اسی طاقت کے محور کی طرف جھک جاتی ہے، جو غیرجمہوری ہاتھوں سے چلا آ رہا ہوتا ہے،  یہی وہ مقام ہے جہاں "سیاسی حلالہ" جیسا افسوسناک تصور جنم لیتا ہے۔

سیاسی حلالہ محض ایک طنزیہ اصطلاح نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی اور اخلاقی خرابی کی عکاسی ہے،  اس کے پیچھے وہی غیرجمہوری ہاتھ ہوتے ہیں جو سیاسی جوڑ توڑ کرواتے ہیں اور سیاستدان اس کھیل میں محض مہرے بن جاتے ہیں۔

آج سیاست اور جمہوریت اپنی قدر و قیمت کھو چکی ہیں،  اصول، برداشت، رواداری — سب کچھ سیاست سے رخصت ہو چکا ہے، جماعتیں خود اس زہر کو پھیلا رہی ہیں اور آخرکار وہی روش اختیار کرتی ہیں جس پر کبھی تنقید کیا کرتی تھیں۔

انتخابات کا عمل محض رسماً رہ گیا ہے، حکمران بھی اب عوام سے کٹے کٹے نظر آتے ہیں، قانون کی حکمرانی ختم، ریاستی رٹ مفلوج، اور جمہوریت خدا کے سہارے چلتی دکھائی دیتی ہے۔

آج ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی وہ "الیکٹیبلز" ہیں جو ہر دور میں پارٹی بدلتے ہیں، وفاداریاں فروخت کرتے ہیں اور اقتدار کی ہوس میں نظریہ و منشور کو روند دیتے ہیں،  ایسے افراد کو سیاسی حلالہ کا کردار دیا جاتا ہے ،  وہ ایک جماعت سے نکالے جاتے ہیں، پھر کسی اور کے لیے "قابلِ قبول" بن جاتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی پارٹی جو کل تک ان کے خلاف تھی، آج ان کے لیے بازو پھیلائے کھڑی ہوتی ہے۔

سیاسی حلالہ کی اصطلاح اب ہماری سیاست کی مستقل حقیقت بن چکی ہے۔ یہ وہ ناسور ہے جس نے انتخابی عمل کو بے توقیر اور عوامی مینڈیٹ کو بے معنی کر دیا ہے۔

سیاستدانوں کا کردار عوامی نمائندگی سے زیادہ اقتدار کے وفادار کا بن چکا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بھنور سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو پارٹی کے منشور، نظریے اور پالیسی کو فوقیت دے، نہ کہ فردِ واحد کی چالاکی، دولت یا اثر و رسوخ کو، متناسب نمائندگی کا نظام وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم طاقت کے محور کو غیر مؤثر بنا سکتے ہیں، اس میں ووٹ "امیدوار" کو نہیں، بلکہ "پارٹی" کو ملتا ہے، نتیجتاً، جماعتیں اپنے نظریے اور منشور کی بنیاد پر عوامی طاقت حاصل کرتی ہیں نہ کہ الیکٹیبلز کی خرید و فروخت سےیہ نظام نہ صرف انتخابی چور دروازے بند کرے گا، بلکہ عوام کو براہِ راست نظریاتی سیاست سے جوڑے گا۔ 

اس سے طاقتور افراد کے سکہ چلانے کی روش بھی کمزور ہو گی کیونکہ یہاں اصل طاقت عوامی حمایت اور جماعت کی ساکھ میں ہوگی، جمہوریت کا اصل حسن اصولوں میں ہے، شخصیات میں نہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت زندہ رہے، تو ہمیں ووٹ کا مرکز "چہرہ" نہیں بلکہ "سوچ" بنانا ہو گا۔

" سیاسی حلالہ جمہوریت کا استحصال ہے۔۔۔ اور متناسب نمایندگی اس کا علاج !


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔