08 مارچ ، 2018
پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے آصف علی زرداری کی پارٹی میں جب سےہانڈی والوں کی کھپت بڑھی ہے، بھٹو کے جیالوں اور بے نظیر کے جاں نثاروں کی طلب گھٹتی جارہی ہے۔
کہیں کہیں بلاول کا بس چلتا ہے تو کرشنا کوہلی ، انورلال ڈین ، بہرہ مند تنگی ، قرۃالعین مری اورسعید غنی کی صورت میں پیپلزپارٹی کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے۔جس طرح پاکستان میں جمہوریت فلم میں وقفے کی طرح آتی ہے،اسی طرح پیپلزپارٹی کا جیالاپن بھی اب وقفوں وقفوں کے بعد جھلکتا ہے۔
رضا ربانی نے ایوان کو ایسے چلایا جس طرح کوئی سخت گیر ماسٹر بچوں کی کلاس چلاتا ہے۔
ایسے ہی ایک وقفے میں رضاربانی کو چیئرمین سینٹ بنادیا گیا تھا۔پھر کیا تھا اس جیالے نے سینٹ کو ’’ایوانِ بالا‘‘ نہ رہنے دیا،’’گلی دستور‘‘ بنادیا۔جہاں فیض، فراز اور جالب کی نظمیں گشت کرتی تھیں۔جمہوریت کی فاختائیں چہچہاتی تھیں اور آتے جاتے لشکروں کی شبیہوں پر سیاہی پھیر دی گئی تھی۔
یہ شور ،یہ غوغہ یہیں تک رہتا توکوئی بات بھی تھی لیکن یہاں تو یہ انوکھےمطالبے بھی ہونے لگے کہ ملک کے تمام سرکاری اداروں میں آویزاں فوجی آمروں کی تصویریں ہٹا دی جائیں۔
رضا ربانی نے ایوان کو ایسے چلایا جس طرح کوئی سخت گیر ماسٹر بچوں کی کلاس چلاتا ہے۔صبح سویرے سب سے پہلے اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ جاتے تھے۔اراکین اور وزیروں کی حاضریاں لگاتے تھےاور ایسے ایسے سبق پڑھانے کی کوشش کرتے تھے جو پاکستان کے سیاسی نصاب میں کبھی شامل ہی نہیں رہے۔
وزیر اور مشیرحاضر نہ ہوں تو خود رُوٹھ کر چلے جاتے تھے۔چیئرمین نہیں بنے تھے تو سینٹ میں گرجتے برستے رہتے تھے۔ 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینا پڑا تو روپڑے تھے۔
ن لیگ چاہتی ہے کہ رضاربانی پھر سے چیئرمین سینٹ بن جائیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب فرحت اللہ بابر ، آصف زرداری کے ترجمانی نہیں کرسکتے توپھر رضا ربانی کا بیانیہ بھی پیپلزپارٹی کا بیانیہ کیسے ہو سکتا ہے۔
آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج تشکیل دینے کی ذمہ داری بھی رضا ربانی نے ہی نبھائی تھی۔میثاقِ جمہوریت کے تحت جب 1973 کے آئین کو اُس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی صدارت بھی رضا ربانی ہی کوسونپی گئی تھی۔
اُن کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا گیا اور اس آئینی ترمیم سے آمریت کے ادوار میں متعارف کروائی گئی شقیں ختم کی گئیں اورایونِ صدر میں مرکوز تمام اختیارات منتخب وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو منتقل کیے گئے۔
رضا ربانی اگرچہ ساتویں بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ پیپلزپارٹی کی پہلی ترجیح نہیں تھےاور اگلے چیئرمین کے لیے تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن چونکہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے مخمصے سے گزر رہی ہے اس لیے پیپلزپارٹی کا جیالاپن اب اُس پہ طاری ہے اوررضاربانی جیسے ’’بیگانے‘‘ اُسے اپنے اپنے سے لگنے لگے ہیں۔
ن لیگ چاہتی ہے کہ رضاربانی پھر سے چیئرمین سینٹ بن جائیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب فرحت اللہ بابر ، آصف زرداری کے ترجمانی نہیں کرسکتے توپھر رضا ربانی کا بیانیہ بھی پیپلزپارٹی کا بیانیہ کیسے ہو سکتا ہے۔
سلیم مانڈی والا کے نام پر اتفاق نہ ہوا تو قرعہء فال شیری رحمٰن کے نام نکل سکتا ہے۔تحریکِ انصاف اگرچہ بلوچستان سے کسی آزاد اُمیدوار کو چیئرمین سینٹ بنانے کے حق میں ہے لیکن اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کے نام پر متفق ہو سکتی ہے۔ اس طرح شیری رحمٰن سینٹ کی پہلی خاتون چیئر پرسن منتخب ہو نے کا اعزاز حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر شیری رحمٰن کے نام پر بھی اتفاق نہ ہوا تو پھر آصف زرداری کے پاس رضاربانی کی کڑوی گولی نگلنے کے سواکوئی چارہ نہ ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔