ڈاؤ یونیورسٹی کی طالبات کی نجی معلومات کباڑیوں کو فروخت

کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی انتظامی غفلت طالبات کے گلے پڑ گئی،طالبات کی تصاویر، فون نمبرز اور گھر کے پتے والے فارم ردی میں بیچ دیے گئے۔

ردی میں تصاویر اور نمبرز ملنے پر لوگوں نے طالبات کو تنگ کرنا شروع کردیا، ڈاؤ یونیورسٹی کی طالبات کو اجنبیوں کے میسجز اور فون آنا شروع ہوگئے، صورتحال سے پریشان ایک طالبہ نے ساری کہانی سوشل میڈیا پر لاکر یونیورسٹی کی غفلت بے نقاب کردی۔

مذکورہ طالبہ کو میسج کرنے والے نے بتایا کہ یونیورسٹی کے فارم میں پان رکھ کربیچا جارہا تھا اور وہیں سے اسے تصویر اور نمبر ملا۔

اطلاعات کے مطابق 2016 سیشن کے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی طالبات کے این ٹی ایس ٹیسٹ کے ایڈمٹ کارڈز جس پر طالبات کی تصویر، ٹیلی فون نمبر، گھر کا ایڈرس اور دیگر معلومات درج تھیں، ان ایڈمٹ کارڈز کو ردی میں فروخت کردیا گیا ہے۔

کراچی کی رہائشی ایک طالبہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں ایک نامعلوم شخص نے فون کرکے بتایا کہ وہ پان کی دکان سے پان خرید رہا تھا اور جس پرچے پر پان ملا وہ طالبہ کا ایڈمٹ کارڈ تھا جس پر تصویر بھی تھی۔

یونیورسٹی کی اس غفلت کو سامنے لانے والی طالبہ نے جیو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ یکم مارچ کو انہیں واٹس ایپ پر میسجز موصول ہوئے اور انہیں ان کی پاسپورٹ سائز تصاویر بھیجی گئیں۔

طالبہ نے بتایا کہ جب انہوں نے میسج بھیجنے والے سے پوچھا کہ ان کے پاس تصاویر کہاں سے آئیں تو انہوں نے ان کی مزید تفصیلات بھی واٹس ایپ کیں اور دیگر طالبات کی تصاویر بھی بھیجیں۔

اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ردی میں ملنے والے ایڈمٹ کارڈ 2015 کے ہیں، ایڈمٹ کارڈز کی ردی میں فروخت کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنادی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک سال بعد ایڈمٹ کارڈز خود تلف کرتے ہیں انھیں بیچا نہیں جاتا، کارڈز ردی میں کیسے فروخت ہوئے اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ داخلے کا عمل ختم ہونے کے ایک سال بعد فارمز تلف کردیے جاتے ہیں، ان فارمز کو کون فروخت کررہا ہے اس کی تفتیش کررہے ہیں اور ڈائریکٹر ایڈمیشن کی سربراہی میں کمیٹی 10 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

مزید خبریں :