21 اپریل ، 2018
سندھ گیمز میں نے نا صرف دیکھنے والوں کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے بلکہ کھلاڑیوں کا کیرئیر اور زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دی ہیں۔
سترہویں سندھ گیمز کا آغاز 19 اپریل کو صوبائی وزیر کھیل غلام محمد خان مہر اور گورنر سندھ نے کیا تھا۔
سندھ گیمز میں ناقص انتظامات کا پول اس وقت کھلا جب کھلاڑیوں نے والٹ جمپ کے لیے غیر معیاری گدوں پر جمپ لگانے کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں۔
صوبائی گیمز کے انتظامات نے نا صرف انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے بلکہ ناکارہ سامان نے کھلاڑیوں کی زندگیاں اور کیرئیر بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اسپورٹس اسپیشلسٹ ڈاکٹر جنید کا جنیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ غیر معیاری گدوں پر والٹ جمپ کھلاڑیوں کو عمر بھر کے لیے نہ صرف مفلوج کر سکتا ہے بلکہ ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب صوبائی وزیر کھیل غلام محمد مہر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میں خود بھی جمناسٹ رہا ہوں اور کھلاڑیوں کو جمپ کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ گدوں میں خلا نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل اسٹاف کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کھلاڑیوں کے لیے گدے کو ٹھیک طرح سے مینیج کرے۔
گدوں کے خراب کوالٹی کے حوالے سے صوبائی وزیر کھیل نے کہا کہ سارا سامان نیشنل کوچنگ سینٹر کا ہے جو وفاق کے ماتحت ہے، ہم اسی بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ہمارا سینٹر ہمیں واپس ملنا چاہیے تاکہ ہم اسے بہتر طریقے سے چلا سکیں۔
غلام محمد مہر نے کہا کہ اگر کھلاڑیوں کے سامان میں کسی قسم کی کمی نظر آئے تو اس کے جوابدہ ہم ہیں لیکن این سی سی چونکہ وفاق کے ماتحت ادارہ ہے اور میں کل خود متعلقہ لوگوں کے سامنے این سی سی کے خلاف ایکشن لوں گا۔