Time 28 جون ، 2018
بلاگ

عام انتخابات، عوامی احتساب اور سوشل میڈیا

الیکشن قریب آتے ہی امیدواروں سے سوالات کرتے ووٹروں کی موبائل فون ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں—۔ فائل فوٹو

پروٹوکول سے محروم سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سوشل میڈیا کے توسط سے لندن کی ایک سڑک دوڑ کر کراس کرتے ہوئے نظر آئے تو پاکستان میں ملامتوں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ کاغذی اخبارات اپنی اہمیت تیزی سے کھو رہے ہیں اور رائے عامہ اب اسکرینوں پر دوڑتی 'ویڈیو کلپس' کی مدد سے نئے پیچ و خم حاصل کرنے لگی ہے۔

حقیقت حال یہی ہے کہ سوشل میڈیا اس نئے دور اور نوجوانوں کا ہتھیار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف چونکہ خود کو نوجوانوں کی جماعت کہلاتی ہے، اسی لیے پی ٹی آئی 2013 کے انتخابات کے دنوں سے فیس بک اور ٹوئٹر کا مہارت سے استعمال کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا کی اہمیت میں اضافے سے مجبور ہو کر غیر اعلانیہ طور پر مریم نواز کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سائبر ونگ کا قیام بھی عمل آیا۔ جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، چونکہ نوجوانوں کی جماعت نہیں سمجھی جاتی، اسی لیے شاید یہ جماعت سوشل میڈیا پر اتنی متحرک نظر نہیں آ پاتی، حالانکہ پیپلزپارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم بھی اپنے طور پر تحرک میں ہے لیکن انہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی۔

ہاں لیکن پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہنیں بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری ضرور ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔

این آر او، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت اور پرویز مشرف کے زیر سایہ ارباب غلام رحیم کی حکومت کے مخاصمانہ رویئے کی بنا پر 2008 کے انتخابات کے دنوں میں پیپلزپارٹی کے لیے صورتحال قدرے خوشگوار تھی اور صوبہ سندھ کے اندر 'شہیدوں کی پارٹی' کے حق میں عوامی حمایت روزانہ کی بنیاد پر پھل پھول رہی تھی، یہی وجہ تھی کہ اس جماعت کو انتخابات میں کامیابی ملی اور 5 سال کے لیے مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کا موقع ملا۔

لیکن عام انتخابات 2013 پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات کا نیا دور اپنے ساتھ لائے۔ امریکا سے قربت کی بنیاد پر ہوئے این آر او کے کئی زاویے انکشافات کی صورت میں سامنے آچکے تھے اور ملک کے ایک اہم ادارے کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش الٹا اثر دکھا چکی تھی، میمو گیٹ اور اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سوئس حکومت کو خط لکھنے میں جو ہچکچاہٹ برتی گئی، اس سب کے نتیجے میں 2013 کے انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے پیر ایسے اکھڑے کہ پارٹی اب تک سنبھل نہیں پائی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے جتنے امیدوار اب تک حلقوں میں جانے کی ہمت کرسکے ہیں، ان کا لہجہ ماضی کی نسبت ذرا نم ہے اور آنکھیں جھکی جھکی رہتی ہیں

تاہم 2013 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی شکست کو دبے الفاظ میں قبول کرتے ہوئے جو دلیل دی وہ کسی حد تک درست تھی کہ 'دہشت گردی کی وجہ سے پارٹی انتخابی مہم چلا نہیں سکی'۔ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کی طالبان کے ہاتھوں اغوا کی مثالیں دیتے ہوئے دلیل کے گرد مضبوط بند باندھے گئے۔

شکارپور اور سیہون میں دہشت گردی کی 'اِکا دُکا' وارداتیں ہوئیں لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں تک دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند ہوتا ہوا دیکھا گیا، جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ 25 جولائی 2018 کے دن جو پولنگ ہوگی اس کو دہشت گردی کا ڈر شدت سے متاثر نہیں کر پائے گا۔

طالبان کی دہشت گردی کسی حد تک بوتل میں بند ہے، جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کو پارٹی کے شریک چیئرمین زرداری کسی نہ کسی طرح نمٹا لیں گے۔ ان کے علاوہ دو ہی ایسے محرک ہیں جن سے پیپلز پارٹی کو مشکلات درپیش ہونے لگی ہیں، ان میں سے ایک ہے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یعنی جی ڈے  اے اور دوسرا موبائل فون۔

پیر پگاڑا کی زیرقیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار پیپلزپارٹی کو کتنے فیصد انتخابی نقصان پہنچا سکیں گے، اس کے لیے تو 25 جولائی والی پولنگ کا انتظار کرنا پڑے گا، لیکن موبائل فون نے ابھی سے اپنا کام دکھانا شروع کردیا ہے اور امیدواروں سے سوالات کرتے ووٹروں کی موبائل فون ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ موبائل کی مرہون منت سوشل میڈیا محض پیپلزپارٹی کے تعاقب میں ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے کسی دور افتادہ گاؤں کے انگریزی بولتے نوجوان ووٹرز کس طرح مسلم لیگ (ن) کے سردار جمال لغاری سے تند و تیز سوالات کرتے ہیں یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں آخری دن تک وفاقی وزیر رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سکندر بوسن سے ووٹروں کی تلخ کلامی بھی سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے۔

 موبائل فون نے ابھی سے اپنا کام دکھانا شروع کردیا ہے اور امیدواروں سے سوالات کرتے ووٹروں کی موبائل فون ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں

لیکن کراچی میں تنخواہ سے محروم محکمہ تعلیم کے ملازمین نے پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کو جب کھری کھری سنائیں، ضلع کشمور میں کندھ کوٹ کے چھوٹے سے شہر تنگوانی میں سردار سلیم جان مزاری، سابق ایم پی اے ڈاکٹر سہراب سرکی اور ضلع دادو میں سابق ایم پی اے عزیز جونیجو کو جس نوعیت کی عوامی عدالت کا سامنا کرنا پڑا، ایسی پیشیاں پہلے شاید کبھی نہیں ہوئی۔

سوشل میڈیا کے توسط سے ہی یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ سابق صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور نواب سردار چانڈیو نے سیاسی رواج کے مطابق ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کے شیشے اتار کر ہاتھ ہلانے کی کوئی زحمت نہیں کیونکہ جیالوں کا ہجوم بپھرا ہوا تھا، سابقہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو بھی نوجوانوں کا غم و غصہ جھیلنا پڑا ہے جبکہ گزشتہ روز مراد علی شاہ کو بھی اپنے آبائی علاقے میں ناراض ووٹرز نے گھیر لیا اور جن سے جان چھڑانا سابق وزیراعلیٰ کے لیے مشکل ہوگیا۔

ایسی خبریں اب باقاعدگی سے میڈیا میں بھی شائع ہو رہی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جتنے امیدوار اب تک حلقوں میں جانے کی ہمت کرسکے ہیں، ان کا لہجہ ماضی کی نسبت ذرا نم ہے اور آنکھیں جھکی جھکی رہتی ہیں۔ سندھ کے مڈل کلاس شہری سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اُن غلطیوں کا خمیازہ ہی بھگت رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ دس سالوں کے اقتدار میں خود سرانجام دی ہیں۔

میڈیا کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر گاؤں یا گوٹھ میں نمائندے بھیج سکے، لیکن ہاتھوں میں موبائل لیے نوجوان ہر گاؤں میں موجود ہیں، جن کے لبوں پر اب عوامی احتساب والے سوالات بھی ہیں۔ کسی امیدوار نے اب تک اس بات کا اظہار نہیں کیا لیکن لگتا یہی ہے کہ اس دفعہ موبائل فون بھی امیدواروں کی ہار اور جیت میں کردار ادا کر رہا ہے، جس کے باعث سیاسی جماعتوں کے سائبر ونگز کی سبقت بھی اب پھیکی پڑنے لگی ہے۔  

یاسین جونیجو سکھر سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں، جو فی الوقت فری لانس بلاگز لکھتے ہیں۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔