20 جولائی ، 2018
کراچی: ملک بھر کی جیلوں میں قید 80 ہزار شہری "حق اور سہولت" کے باوجود انتخابات میں ووٹ دینے سے محروم ہیں۔
جیل مینوئل کے مطابق کسی بھی قیدی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور قیدی بیلٹ پیپر بذریعہ جیل انتظامیہ متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کو درخواست دے کر بیرک میں منگوا سکتا ہے تاہم قیدیوں کے ووٹ دینے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اقدامات سامنے نہیں آئے۔
پنجاب کی 40 مختلف جیلوں میں ایک ہزار خواتین سمیت 49 ہزار 100 قیدی ہیں جب کہ سندھ کی 26 جیلوں میں 200 خواتین سمیت قیدیوں کی تعداد 19 ہزار سے زائد ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کی 23 جیلوں میں 220 خواتین سمیت 10 ہزار 50 اور بلوچستان کی 11 مختلف جیلوں میں 20 خواتین سمیت 2100 سے زائد قیدی موجود ہیں۔
جیل مینوئل میں انتخابی عمل کے حوالے سے سوال کرنے پر حال ہی میں آئی جی جیل خانہ جات سندھ کے عہدے سے تبدیل کئے گئے افسر نصرت منگن نے کہا کہ کسی بھی قیدی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیدی اپنا بیلٹ پیپر جیل انتظامیہ کی مدد سے متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کو درخواست کر کے جیل میں منگوا سکتا ہے اور کاسٹ کر کے سربمہر لفافہ بھیج کر اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔
نصرت منگن کے مطابق قیدیوں کو اس حوالے سے شعور یا آگاہی نہیں اور جیل انتظامیہ بھی خوامخواہ کا کام بڑھنے سے گریز کرتی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اب تک ایسے خاطر خواہ انتظامات یا اقدامات سامنے نہیں آئے جن میں جیلوں میں قید مجموعی طور پر 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں قانونی طور پر حق ہونے کے باوجود رائے دہی استعمال کرایا جارہا ہو۔
جیل ذرائع کے مطابق مئی 2013 کے انتخابات میں بھی قیدیوں کو اس سہولت سے استفادہ نہیں کرایا گیا جبکہ 2008 کے الیکشن میں سندھ میں محض 10 قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرائے گئے تھے۔
اور 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سندھ کی مختلف جیلوں میں اب تک ایسا ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرایا جاسکا ہے۔