Time 27 اگست ، 2018
پاکستان

نیب ریفرنسز: احتساب عدالت کی نواز شریف کو کل دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت

احتساب عدالت کے جج کی ڈیڈ لائن میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔ فوٹو: فائل 

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 2 نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی جب کہ آج کی سماعت کے وقفے کے دوران نواز شریف نے جیل سے باہر چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ 

اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنسز کی سماعت کی۔

دونوں ریفرنسز میں نامزد ملزم نواز شریف کو سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا گیا، اس موقع پر ان کے وکیل کی سپریم کورٹ میں مصروفیات کے باعث فاضل جج نے سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کیا گیا۔

اس موقع پر نواز شریف کی خواہش پر لیگی رہنما ناصر بٹ ان کے لیے چائے لائے جس کے لیے وہ لیگی رہنماؤں کے ہمراہ اسٹاف روم گئے جہاں بیٹھنے کی مناسب جگہ ناملنے پر سابق وزیراعظم واپس کمرہ عدالت کی جانب مڑ گئے۔ 

کمرہ عدالت پہنچنے پر نواز شریف نے اپنے وکیل سے بات کی اور وکیل نے انہیں بتایا کہ کمرہ عدالت میں چائے پینےکی اجازت نہیں جس کے بعد وہ چائے نہ پی سکے۔

وقفے کے بعد دوبارہ عدالت لگی تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ اور نیب کے گواہ واجد ضیا پر جرح کی۔

واجد ضیا نے اس موقع پر بتایا کہ مشاورت کے بعد جے آئی ٹی نے طے کیا کہ ملزمان کے گواہان کو پیشگی سوالنامہ نہیں بھیجا جائے گا جس پر نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا اسی فیصلے کو آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا نہیں کیا گیا۔

واجد ضیا کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کے خط پرمشاورت کے بعد ہم کسی رائے پر نہیں پہنچ سکے کہ اب دوحا جانا ہے یا نہیں، قطری کی شرائط اور دوحا جانے کا معاملہ سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کے سامنے رکھا اور دو آپشنز رکھے کہ ہم دوحا جائیں ہی نہیں اور دوسرا آپشن تھا کہ ہم دوحا جائیں لیکن سوالنامہ پہلے نہ بھیجیں۔

اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کو لکھے خط میں بھی یہ ذکرنہیں کیا کہ جے آئی ٹی کسی بھی گواہ کو سوالنامہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

اور کیا جب سوالنامہ نا بھجوانے کا فیصلہ ہوا اس میٹنگ میں عرفان منگی بھی موجود تھے، کیا عرفان منگی نے بتایا تھا کہ نیب مقدمات میں پہلے سوالنامہ بھیجا جاتا ہے؟ جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ عرفان منگی موجود تھے لیکن انہوں نے کچھ ایسا کہا یہ یاد نہیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 'کیا آپ کے نوٹس میں یہ ہے کہ نیب کیسز میں پہلے سوالنامہ بھیجا جاتا ہے' جس پر واجد ضیا نے کہا ' نیب میں کبھی کام نہیں کیا اسی لیے اس سے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا، یہ درست ہے کہ کچھ ممبرز نے کہا تھا کہ کچھ ڈپارٹمنٹس پہلے سوالنامہ بھیجتے ہیں، میٹنگ میں یہ بات ہوئی تھی کہ کچھ ایف آئی اے کیسز میں بھی سوالنامہ بھیجا جاتا ہے'۔

اس موقع پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ قطری کتنے خط لکھتا رہا اور کیا بس خط ہی چھکا چھک آتے جاتے رہے، ہوا کچھ بھی نہیں، نا جے آئی ٹی والے قطری کے پاس گئے اور نہ وہ ان کے پاس آیا، جب پیش رفت ہی کوئی نہیں ہوئی تو پھر سارا معاملہ ایک جملے میں لکھا جاسکتا ہے۔

جج نے کہا کہ صرف لکھ دیں کہ نا قطری پاکستان آیا نا جے آئی ٹی قطر گئی اس لئے خطوط کی تصدیق نا ہوسکی۔

احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیا کو کل دوبارہ طلب کرلیا جب کہ عدالت نے ہدایت کی کہ نواز شریف کو بھی کل پیش کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن میں توسیع سے متعلق احتساب عدالت کے جج کی درخواست کی بھی آج سماعت کی۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کو نواز شریف کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتوں کی مہلت دے دی۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے نیب ریفرنسز کی ڈیڈ لائن میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ کو لکھا گیا یہ پانچواں خط ہے۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا تھا جب کہ عدالت نے نیب کو ریفرنسز دائر کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 

عدالتی فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا تھا۔

احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو اس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو مجموعی طور پر 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا کی۔

نیب کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

مزید خبریں :