09 اکتوبر ، 2018
کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران رکن سندھ اسمبلی سہیل انور سیال نے جواب جمع کرادیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، مقدمے میں فریال تالپور، منظور وسان ، سہیل انور سیال اور دیگر شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے لاء آفیسر عبداللہ ہنجرہ نے اقامہ سے متعلق جواب جمع کرادیا اور کہا کہ ہم جواب داخل کراچکے ہیں جب کہ درخواست گزار کے وکیل خواجہ شمس الاسلام نے کہا کہ فریال تالپور اور سہیل انور سیال کے خلاف کیس چلانے کو تیار ہیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے جواب پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا جواب دیکھا ہے، جس میں کچھ نہیں، ایک صفحے کے جواب میں کیا ہے، معلوم ہے آپ کیا کام کر رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا 'جواب تفصیل سے مانگا مگر ایک صفحے کا جواب دے کر ذمہ داری پوری کر دی، عدالتوں میں جواب ایسے جمع کراتے ہیں، ایسے جواب کون دیتا ہے'۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک آج بھی پیش نہیں ہوئے تو ان کے جونئیر کو کیس چلانا چاہیے جس پر عدالت نے کہا کہ اگر وکیل نہیں تو کیس کیسے آگے بڑھائیں، فاروق نائیک سے کہیں وہ آئندہ پیش ہوں ورنہ ان کا کیس الگ کر دیں گے۔
ایڈووکیٹ خواجہ شمس الاسلام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فریال تالپور نے اپنے جواب میں اقامہ اور دبئی کے اثاثے بھی ظاہر نہیں کیے، فیصلے تک فریال تالپور سے عوامی عہدہ واپس لیا جائے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ فریال تالپور نے 2002 میں صاحبزادی عائشہ کے نام پر دبئی میں کمپنی قائم کی اور رقم دبئی منتقل کرنے کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائیں۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر فریال تالپور و دیگر صادق اور امین نہیں رہے۔
رکن سندھ اسمبلی سہیل انور سیال نے عدالت میں حلف نامے سے متعلق جواب جمع کرادیا جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے اور وہ آئین کے تحت صرف الیکشن ٹربیونل سے رجوع کر سکتا ہے، درخواست گزار کی جانب سے لگائے گئے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔
سہیل انور سیال نے درخواست میں کہا کہ ایف بی آر کو تمام ٹیکس گوشوارے جمع کرادئیے تھے اور ہر سال انکم ٹیکس ریٹرن میں تفصیلات دیتا رہا ہوں، ڈکلیئریشن فارم میں اقامہ ظاہر کرنے کے لئے کالم نہیں تھا۔
عدالت نے مزید سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کردی۔