22 نومبر ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں بطور ملزم اپنا بیان مکمل کرلیا جسے کے بعد احتساب عدالت نے فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلیے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں اپنا دفاع پیش نہیں کر رہا، یہ کیس میرے مخالفین کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور جے آئی ٹی کی یکطرفہ رپورٹ پر بنائے گئے اور جے آئی ٹی رپورٹ میں غلط طریقے سے مجھے العزیزیہ اور ہل میٹل کا مالک ظاہر کیا گیا۔
نواز شریف نے کہا سپریم کورٹ کا معزز بینچ بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مکمل مطمئن نہیں تھا، اعلیٰ عدالت کی طرف سے معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھجوایا گیا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے۔
فاضل جج نے نواز شریف سے سوال کیا کہ آپ کے خلاف یہ کیس کیوں بنایا گیا اور گواہان نے آکر کیوں گواہی دی۔
نواز شریف نے جواب دیتے ہوئے کہا مفروضوں پر اس کیس کو چلایا گیا، یہ کیس منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کرپشن کے الزامات پر شروع ہوا اور بے رحمانہ احتساب کے بعد بات آمدن سے زائد اثاثہ جات پر آگئی۔
سابق وزیراعظم نے کہا واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا، ان کا بیان قابل قبول شہادت نہیں، واجد ضیا اور تفتیشی افسر نے حلفاً اقرار کیا کہ میرے خلاف ثبوت نہیں ملے، مطمئن ہوں ساری نسلیں کھنگالنے کے بعد کرپشن نہیں نکلی، میں نے ذاتی اور سیاسی قربانی دی اور میرا 40 سالہ سیاسی کیرئیر صاف اور شفاف ہے۔
نواز شریف نے کہا العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا اصل مالک ہوں اور نہ ہی بے نامی دار، استغاثہ اس حوالے سے کوئی بھی شواہد پیش نہیں کرسکا، بیٹوں کو بیرون ملک تعلیم، رہائش یا کاروبار چلانے کے لیے کوئی رقم پاکستان سے نہیں بھیجی، وہ جن ممالک میں کاروبار کر رہے وہ قانون کے مطابق ہے، بچوں کے لین دین میں کوئی غیر قانونی چیز نہیں نکالی جاسکی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اس احتساب کے عمل کے دوران ہر طرح کی قربانی دی، اس سارے مرحلے میں مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچا مگر میں پیچھے نہیں ہٹا۔
نواز شریف نے کہا کہ نیب نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ میں نے العزیزیہ یا ہل میٹل قائم کی ہو اور استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ حسن اور حسین نواز میرے زیر کفالت اور بے نامی دار تھے جب کہ استغاثہ میرے خلاف فرد جرم ثابت کرنے کے لیے رتی برابر ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں میرے مرحوم والد نے قائم کی، اس وقت حسین نواز کی عمر 29 سال تھی، واجد ضیاء اور تفتیشی افسر نے اعتراف کیا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل میری ملکیت میں ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔
سابق وزیراعظم نے اتفاق فاؤنڈری میں جنرل یحیی کے دورے کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی اور ایک تصویر پیش کی، نواز شریف نے کہا کہ یہ جو آمدن کے ذرائع کی بات کرتے ہیں وہ یہ تصویر دیکھ لیں، اس تصویر میں، میں بھی موجود ہوں۔
احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ این آر او کی باتیں مفروضوں پر مبنی ہیں، این آر او کرنے والا لندن سے آ کر جیل نہیں جاتا۔
نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔
عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔
نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔
شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔