27 نومبر ، 2018
دنیا بھر میں ناقص مصنوعی اعضاء معذوری اور اموات کا سبب بن رہے ہیں اور نقائص والے اعضاء کے استعمال سے صرف ترقی پذیر ہی نہیں بلکہ امریکا اور برطانوی ممالک بھی متاثر ہیں۔
تحقیقاتی صحافیوں کے عالمی گروپ انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists) یعنی آئی سی آئی جے نے دنیا بھر میں طبی آلات کے حوالے سے 'امپلانٹ فائلز' کے نام سے ایک تحقیق کی۔
اس تحقیق میں 36 ملکوں سے 250 رپورٹرز نے حصہ لیا، جس میں پاکستان سے سینئر صحافی عمر چیمہ بھی شامل تھے۔
دی نیوز اخبار میں شائع ہونے والی عمر چیمہ کی اس رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ پیس میکر، دل کے اسٹنٹس، مصنوعی کولہے، گھٹنے، چھاتیاں اور اسی طرح کے دیگر مصنوعی اعضاء کی وجہ سے اکثر مریض مزید بیمار، معذور حتیٰ کہ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نقائص والے امپلانٹس (مصنوعی اعضاء) سے مریضوں کے متاثر ہونے کا معاملہ صرف ترقی پذیر ممالک نہیں بلکہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے۔
تاہم پاکستان میں ان ڈیوائسز کو پرکھنے اور جائزہ لینے والا کوئی ادارہ نہیں، جو مغربی ممالک سے درآمد کیے جانے والے ان آلات کی جانچ پڑتال کرسکے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں مریضوں کے جسم میں نصب کیے جانے والے میڈیکل امپلانٹس (طبی آلات) کے نتیجے میں کس طرح مریض مشکلات کا شکار ہوئے اور ان میں اکثر کا انتقال ہوگیا۔
تاہم پاکستان میں اس صورتحال کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں جس کی وجہ کمزور ریگولیٹری میکنزم اور ڈاکٹروں اور یہ آلات بنانے والوں کا گٹھ جوڑ بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
واضح رہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آر اے پی) نے 17 ممالک سے طبی امپلانٹس اور ڈیوائسز درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جن میں امریکا، برطانیہ، جاپان، آسٹریلیا، کینیڈا، آسٹریا، بیلجیئم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، اسپین، سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ان ممالک سے درآمد کے لیے متعلقہ ملک کی ریگولیٹری باڈی سے اجازت ضروری ہوتی ہے۔
آئی سی آئی جے کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے قوانین میں نرمی کی وجہ سے ڈیوائس انڈسٹری کا کاروبار فروغ پا رہا ہے اور ڈیوائس بنانے والے بڑے ادارے نگرانی کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر یورپ میں مصنوعات متعارف کراتے ہیں۔ مثلاً ایک امریکی کمپنی زمر بایومیٹ نے امریکی نگران ادارے کی منظوری ملنے سے قبل ہی یورپ میں مصنوعی کولہے متعارف کرا دیے۔ یورپی ریگولیٹر نے 2003ء میں اسے محفوظ قرار دیا حالانکہ زمر بایومیٹ کی جانب سے اس کے محفوظ ہونے کے حوالے سے کوئی طبی شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔ لیکن ان امپلانٹس نے مریضوں کو درد میں مبتلا کر دیا اور کئی مریض اسے تبدیل کرانے گئے لیکن اس کے بنانے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا کیونکہ قواعد میں نرمی کی گئی تھی۔
دوسری جانب پاکستان کے ڈی آر اے پی نے اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کی بجائے غور و خوص کا کام آلات بنانے والے ممالک کی کمپنی کے سپرد کر رکھا ہے اور اس کا اپنا تحقیق و جائزے کا سسٹم نہیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دل کا علاج کرنے والے اداروں میں غیر رجسٹرڈ اسٹنٹس کے استعمال پر از خود نوٹس لیے جانے یعنی رواں سال جنوری تک ملک میں درآمد شدہ آلات کو رجسٹر کرنے کا بھی کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔