پاکستان
Time 17 دسمبر ، 2018

فلیگ شپ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل

استغاثہ کی دی گئی دستاویزات جعل سازی پر مبنی ہیں: خواجہ حارث۔ فوٹو: فائل 

العزیزیہ اور کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بعد فلیگ شپ ریفرنس میں بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

خواجہ حارث کے دلائل دینے کے دوران نواز شریف کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

کیپٹل ایف زیڈ ای اور نواز شریف کے اقامے پر دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی موقع پر ان دستاویزات سے لاتعلقی کا اظہار کیا؟

خواجہ حارث نے کہا ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں، ملزم کو شواہد سے متعلق شکوک پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے مخصوص مدت کے لیے کیپیٹل ایف زیڈ ای کے ملازم کی حیثیت سے ویزا لیا، ہم صرف یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان دستاویزات کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

جج ارشد ملک نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے تصدیق کے لیے کوئی کوشش کی تھی؟

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا، کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میرے علم میں یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں، یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں ہیں، ان اسکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہاب سلطان سے دستاویزات لائی گئیں لیکن ان کا بیان انہوں نے ریکارڈ نہیں کیا، یہ بیرون ملک جا کر بیان ریکارڈ کر سکتے تھے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے شہاب سلطان کا بیان ریکارڈ کیا جا سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی دی گئی دستاویزات جعل سازی پر مبنی ہیں، دستاویزات آپس میں ہی نہیں ملتیں، ان دستاویزات پر تو نوازشریف کے دستخط بھی ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فوٹو کاپی ہے، کسی نے دی ہے تو اسے ثابت کرنا ہو گا کہ اصل دستاویزات پر نواز شریف کے دستخط تھے، یہ دستاویزات کئی شکوک شبہات کو جنم دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے انجانے میں نہیں، جان بوجھ کر ان دستاویزات کو الگ الگ پیش کیا۔

خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان بھی پڑھ کر سنایا، واجد ضیاء نے خود کہا کہ انہوں نے ان دستاویزات کی یو اے ای سے تصدیق کی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ واجد ضیاء نے خود کہا اسکرین شاٹس جاری کرنے والے کا نام دستاویزات پر نہیں تھا، اسکرین شاٹس سے متعلق الیکٹرانک ٹرانزیکشن کا پورا ریکارڈ بھی دیکھنا تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء نے خود کہا جے آئی ٹی رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا اسکرین شاٹس ہیں، دستاویز میں نوازشریف کے عربی اور انگریزی نام میں بھی فرق تھا، واجد ضیاء نے اس موقع پر ازخود بیان کا سہارا لیا۔

انہوں نے بتایا کہ واجد ضیاء نے کہا ہم نے اس باکس پر کلک نہیں کیا اس لیے پورا نام سامنے نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو محمد محمد ہی پکار رہے ہوتے ہیں۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ استغاثہ کا کہنا ہے نواز شریف کا نام چونکہ بطور چیئرمین بورڈ لکھا ہے تو ان کا تعلق ملکیت سے ہے، یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اتنا بڑا مسئلہ تھا تو جاننا کیوں ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا کہ کس ذریعے سے ملازمین کو تنخواہ دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔

سابق وزیراعظم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی نے جس دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام ہی نہیں ہے۔

احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا تنخواہ والے معاملے کی اب بھی کوئی اہمیت ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس کیس کی حد تک تنخواہ والے معاملے کی اہمیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو لوگوں نے انہیں شہید کہنا شروع کیا، ایسے لوگوں پر لاہور میں توہین عدالت کا مقدمہ ہو گیا تھا۔

احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو کل ہی حتمی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مزید خبریں :