06 فروری ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو سیاسی جماعتیں بنانے اور ان کا رکن بننے سمیت ہر شہری اور سیاسی جماعت کو اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اجتماع اور احتجاج پُرامن اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے جس سے دیگر شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں ہدایت دی کہ سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون پر عمل نہ کرنے والی سیاسی جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن کارروائی کرے اور ہر سیاسی جماعت کو اپنے فنڈز کے ذرائع سے متعلق جواب دہ ہونا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اداروں میں، آزادانہ کام کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے، کسی بھی ایجنسی یا ادارے کو آزادی اظہار پر پابندی لگانے، ٹی وی نشریات، اخبارات کی اشاعت میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ سانحہ 12 مئی پر ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی اور قتل، اقدام قتل میں ملوث حکومت میں شامل بڑے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بری مثال قائم ہوئی اور تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کو غیر جانبد ار اور منصفانہ ہونا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اداروں میں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں مظاہرے، ریلیاں اور دھرنوں سے نمٹنے کا اسٹینڈرڈ پلان بنائیں، یقینی بنایا جائے کہ ایسے منصوبوں میں مختلف صورتحال کو ہینڈل کرنے کی گنجائش ہو، امید کی جاتی ہے پلان پر عمل درآمد میں شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کہا مذہبی منافرت پھیلانے و فتوی جاری کرنیوالے کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا، مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا۔
مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، اس دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جبکہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخودنوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ