13 فروری ، 2019
جاڑے کا چل چلاؤ ہے اور بہار کے ساتھ پی ایس ایل کی آمد آمد ہے۔ بسنتی پھولوں کے اس موسم میں پاکستان سپر لیگ کو بھی ایک تہوار کی طرح ہی منایا جاتا ہے۔ حسب روایت اس باربھی پہلی گیند جمعرات کو دبئی میں گرے گی جہاں شام کے انگڑائی لیتے ہی ایک عالی شان افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوگا۔ پہلی شب کے دبئی اسپورٹس سٹی کے پلاٹینیم اور پریمیم اسٹینڈز سمیت تمام آن لائن ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں۔
پی ایس ایل 4 میں شریک چھ ٹیموں میں کسی کو بھی 'ہاٹ فیورٹ' قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ سکواڈز پر نظر دوڑائیں تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کا وزن زیادہ لگ رہا ہے۔
لاہور قلندرز کے پاس خطرناک کھلاڑیوں کی کمی نہیں اگرٹیم یکجا ہوکر کھیلی تو اس میں سب کو حیران کرنے کی اہلیت موجود ہے۔ بابر اعظم، شاداب خان اور شاہین آفریدی یہ تین ایسے کرکٹرز ہیں جو تن تہنا اپنی ٹیم کو چیمپئن بنوا سکتے ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے چھپے رستم
دفاعی چیمپئن اسلام آباد کی کامیابی کا راز ہمیشہ سے اس کی مثالی مینجمنٹ اورمنفرد ٹیلنٹ رہا ہے۔ اس بار بھی یونائیٹد کے حسن چیمہ اور ریحان الحق جیسے زیرک مینجرز نے ایک مضبوط اورمتوازن سکواڈ کا انتخاب کیا ہے۔
اسلام آباد کی بیٹنگ کا بڑا دارومدار ایک بار پھر لیوک رونکی پر ہے جنہوں نے گزشتہ سال پانچ بار مین آف دی میچ ایوارڈ جیت کراپنی ٹیم کو چیمپئن بنوایا۔
رونکی کے اوپننگ پارٹنر کیلئے باصلاحیت صاحبزادہ فرحان اور نئی دریافت رضوان حسین کے درمیان ٹائی ہے۔ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے رضوان کا تعلق پنجاب کے قصبہ پیرمحل سے ہے اور پی ایس ایل 4 میں ان کے نام کا بول بالا ہوسکتا ہے۔
مڈل آرڈرز میں دو فرنگیوں ای این بیل اور فل سالٹ کے علاوہ آصف علی موجود ہیں جنہوں نے گز شتہ فائنل میں حسن علی کے ایک ہی اوور میں تین چھکے لگا کر کام تمام کردیا تھا۔
رومان رئیس کی واپسی اسلام آباد کے پیس اٹیک کےلئے اچھا شگون ہے جس میں عماد بٹ اپنی رفتار اور محمد موسیٰ اپنے انوکھے ایکشن کی وجہ سے چھپے رستم ثابت ہو سکتے ہیں۔
شاداب خان اور سمت پٹیل کی موجودگی میں یہ ایک مکمل ٹیم ہے لیکن یونائیٹڈ کی جیت اور ہار کا بڑا تعلق نئے کپتان محمد سمیع کے فیلڈ پر فیصلوں اور ان کے اعصاب پر قابو رکھنے پر ہوگا اور وہی اس ٹیم کا 'ویک لنک' بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا معمہ
کیون پیٹرسن کے بغیر یہ کوئٹہ کا پہلا ٹورنامنٹ ہوگا۔ کیون پیٹرسن کے آبائی وطن جنوبی افریقا کی طرح اس ٹیم کو بھی ناک آؤٹ مرحلے پر پسپا ہونے کی عادت ہے۔
لیکن ڈیوائن برارو اور شین واٹسن اس ٹیم میں ایسے سورما ہیں جو ماضی میں اپنی ٹیموں کو آئی سی سی اور آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ جتوا چکے ہیں۔
براوو نے رواں برس ناصرف اپنی کپتانی میں ٹرینیڈاڈ این ٹوبیگو کو کیربین پریمیر لیگ کا چیمپئن بنوایا بلکہ الزاری جوزف کو پانچ لگاتار چھکے بھی لگائے تھے۔ واٹسن کی فام حالیہ بگ بیش میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
کوئٹہ نے ماضی میں پی ایس ایل کے مجموعی 31 میں سے 17 میچز اپنے اسپنرز کے بل بوتے پر جیتے ہیں۔ اس بار بھی گلیڈی ایٹرز کا اسپن اٹیک محمد نواز، سنیل نارائن اور پاکستانی نژاد آسٹریلوی لیگ اسپنر فواد احمد کی موجودگی میں دوسروں سے برتر ہے۔
اس ٹیم کا ایک خاصہ مستقل مزاجی ہے۔ یہ پی ایس ایل کی واحد فرنچائز ہے جس کی ٹیم انتظامیہ میں پہلے دن سے آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ سرفراز احمد مسلسل چوتھی بار کپتانی کرنے کا لیگ میں ریکارڈ قائم کریں گے۔
معین خان کوچ، ویوین رچرڈز مینٹور اور اعظم خان مینجر ہیں، اگر کوئٹہ نے اس بار فائنل کے لئے کوالیفائی کیا اور شین واٹسن نے پاکستان آنے کی حامی بھر لی تو پھر اس ٹیم کو چیمپئن بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
لاہور قلندرز کے لیے وہ دن دور نہیں
کہتے ہیں اندھیرے میں دیکھنے والی آنکھوں کو بہت کچھ نظر آجاتا ہے یہی وجہ ہے لاہور قلندزر کا نقشہ اس بار بدلا بدلا لگ رہا ہے۔ یہ ٹیم کرس گیل کے بعد برینڈن میکلم اور عمراکمل کا بوجھ سر سے اتار کر ابراہم ڈیویلیرز اور محمد حفیظ جیسے پروفیشنلز کے ساتھ نئے دور میں داخل ہورہی ہے۔ اے بی ڈویلیرز کے آنے سے پی ایس ایل کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔
شاہین شاہ اور ڈی ویلیرز لاہور کے دو ایسے کھلاڑی ہیں جو تن تنہا میچ کا ہی نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کا بھی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔
قلندرز کی اسپن باؤلنگ اس ٹیم کی طاقت ہے جس میں یاسرشاہ کے علاوہ نیپالی لیگ اسپنر سندیپ لماچین پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ سندیپ پی ایس ایل میں حصہ لینے والے کسی ایسوسی ایٹ ملک کے پہلے کرکٹر بن جائیں گے۔
انہیں ٹونٹی ٹونٹی کی دنیا کا نیا ساحر سمجھا جاتا ہے، محمد حفیظ اور حسان خان کی شکلوں میں ٹیم کو دو دائیں اور بائیں ہاتھ کے فنگر اسپنرز بھی دستیاب ہیں جن کے خلاف رنز بنانا آسان نہیں۔ سعد علی اور حارث رؤف ٹیم میں اچھا اضافہ ہیں۔
پی ایس ایل سے وابستہ ماضی کی بری یادیں اور اے بی ڈویلیرز کا کراچی نہ جانا لاہور قلندرز کی کمزوری ثابت سکتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کو نو مارچ کا بے صبری سے انتطار ہے جب لاہور قلندرز پہلی بار اپنے ہوم گراؤنڈ قذافی اسٹیڈیم میں جلوہ گر ہوں گے اور وہ دن اب دور نہیں۔
کراچی کنگرز کے پاور پلئیرز
گزشتہ دو سیزن میں تیسرے نمبر پر اکتفا کرنے والی کراچی کنگز اس بار ماضی سے زیادہ بہتر اور متوازن ٹیم لگ رہی ہے۔ ٹی ٹونٹی میں عام طور پر جیت کا فیصلہ 'پاور پلے' میں ہوتا ہے اور کراچی کو بیٹنگ پاور پلے میں عالمی نمبر ایک اور دو بابر اعظم اور کولن منرو کی خدمات حاصل ہیں۔
بابراعظم ان دنوں بیٹنگ میں اپنے نام کا ہوبہوعکس لگتے ہیں۔ کولن منرو کو بین الاقوامی ٹی ٹونٹی میں صرف سب سے زیادہ تین سینچریاں بنانے کا ہی اعزاز نہیں بلکہ ان کا اسٹرائک ریٹ بھی 161 بھی دوسروں سے بالا ہے۔
بیٹنگ کی طرح دو بہترین باؤلنگ پاور پلئیرز کپتان عماد وسیم اور محمد عامر کراچی کو دستیاب ہیں۔
باؤلنگ میں کراچی کا دارومدار اس بار بھی پاکستانی ٹیلنٹ پر ہے جس میں سہیل خان، عثمان شنواری اورفٹ ہوکر دو برس بعد پی ایس ایل میں واپس لوٹے والے نوجوان لیگ اسپنر ابرار احمد شامل ہیں۔
پہلے دو ہفتے کےلئے کولن منرو کی عدم دستیابی اور اسپنرز کےلئے سازگار حالات میں بیٹنگ میں حد درجہ سمندر پار کرکٹرز پر انحصار کی پالیسی کراچی کو پی ایس ایل کا کنگز بننے سے روک سکتی ہے۔
پشاور زلمی کی خاص بات
اس بار پشاور زلمی کی خاص بات پی ایس ایل کے تینوں ٹائٹل جیتنے والے کپتانوں مصباح الحق اور ڈیرن سمی کا اس ٹیم میں موجود ہونا ہے لیکن شاہد آفریدی، تمیم اقبال اور محمد حفیظ جیسے کھلاڑیوں کے نکلنے کے بعد اس ٹیم میں ایک خلا دکھائی دے رہا ہے۔
ٹورنامنٹ کی تاریخ کے سب سے کامیاب بیٹسمین کامران اکمل اور باؤلر وہاب ریاض پشاور زلمی کی صفوں میں اب بھی شامل ہیں۔ کامران 929 رنز اور وہاب 48 وکٹیں اڑا چکے ہیں۔
زلمی نے 2016ء میں ایک باؤلرحسن علی کو دنیائے کرکٹ میں متعارف کرایا تھا اس بار جارحانہ بیٹسمین نبی گل کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
عمر رسیدہ کرکٹرز پرضرورت سے زیادہ انحصار اور کامران اکمل کے ساتھ دوسرے اچھے اوپنرز کے نہ ہونے سے زلمی کی جیت کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔
ملتان کی راہ میں رکاوٹیں
ملطان سلطان میں ایک ہی سال میں مالکان سے کھلاڑیوں تک بہت کچھ بدل گیا ہے۔ چھ ملین امریکی ڈالرز میں خریدی گئی یہ ٹورنامنٹ کی سب سے مہنگی ٹیم ہے جس کی جنوبی پنجاب میں مقبولیت اس وقت اپنے عروج پر ہے۔
ٹیم کی فاسٹ باؤلنگ مضبوط ہے جس میں جنید خان اورمحمد عرفان کے علاوہ نیا چہرہ محمد الیاس ہے جنہوں نے اپنے فرسٹ کلاس ڈیبیو پر حال ہی میں تہلکہ مچایا تھا۔
شاہد آفریدی پہلی بار پاکستانی سرزمین پر پی ایس ایل کا میچ کھیلیں گے لیکن ملتان کی جیت آندرے رسل کی فام سے بھی مشروط ہے۔ حماد اعظم کی شمولیت سے ٹیم کو اچھا فنشر ملا ہے۔
کھلاڑیوں کی بڑھتی ہوئی عمراورکوچنگ اسٹاف میں کوئی بڑا نام نہ ہونا ملتان کو پلے آف مرحلے تک پہنچے سے روک سکتا ہے۔