27 اگست ، 2019
جنہیں بحرانوں اور طوفانوں سے ٹکرانے کا شوق ہوتا ہے وہ طغیانی اور موجِ حوادث کا انتظار نہیں کرتے بلکہ گردابِ بلا کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بحر کی موجوں میں اضطراب نہ ہو تو چائے کی پیالی میں طوفاں برپا کر لیتے ہیں تاکہ لذتِ شوق کا کچھ مداوا تو ہو۔ تبدیلی سرکار نے بھی کچھ ایسا ہی مزاج پایا ہے۔
نہایت مشقت سے برپا کیا گیا معاشی بحران ہی اس ذوق کا ثبوت نہیں بلکہ پارلیمان میں گاہے گاہے سر اُٹھاتا جوار بھاٹا بھی ان کی عادات و اطوار کا غماز ہے۔ پہلے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین تعینات کرنے پر سینگ پھنسا لئے گئے جس سے پارلیمانی معاملات جمود کا شکار ہو گئے۔ وہ تو بھلا ہو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا جنہوں نے معاملہ فہمی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے قائل کیا کہ ہر طوفان سے چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں ہوتی۔
پھر پروڈکشن آرڈر کے قانون پر حکومت کی کشتی کو بیچ منجدھار لے جانے کی کوشش کی گئی۔ دو ارکانِ پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر ابھی تک جاری نہیں کئے جاسکے۔
اب الیکشن کمیشن میں نامزدگیوں سے متعلق ایک نیا بحران دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس معاملے کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ جنوری 2019 میں الیکشن کمیشن کے چار میں سے دو ارکان کی آئینی مدت ختم ہو گئی اور یوں سندھ سے الیکشن کمیشن کے رُکن عبدالغفار سومرو جبکہ بلوچستان سے جسٹس (ر) شکیل بلوچ ریٹائر ہو گئے۔
آئین کے آرٹیکل 215کے تحت ان خالی اسامیوں کو 45 دن کے اندر پُر کرنا تھا مگر 220 دن گزرنے کے باوجود یہ مرحلہ شوق طے نہیں ہو سکا۔ یوں آئین کے اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کا ارتکاب پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پہلے صدرِ مملکت کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کرنے کا استحقاق حاصل تھا مگر اب طریقہ کار یہ ہے کہ وزیراعظم قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت کے بعد نام بھیجنے کا پابند ہے اگر مشاورت نتیجہ خیز نہ ہو تو پھر یہ معاملہ 12رُکنی پارلیمانی کمیٹی میں چلا جاتا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی موجود ہے۔
الیکشن کمیشن کے ریٹائر ہونے والے ارکان کی جگہ نئے افراد کا انتخاب کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے جتنے اجلاس ہوئے، ان میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا کیونکہ حکومت اور اپوزیشن، دنوں اپنے تجویز کردہ ناموں پر اصرار کرتے رہے۔ حکومتی ارکان نے بلوچستان سے منیر کاکڑ، امان اللہ بلوچ اور میر نوید جان بلوچ کے نام پیش کئے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے صلاح الدین مینگل، شاہ محمد جتوئی اور رئوف عطا کے نام تجویز پیش کئے گئے۔
اسی طرح سندھ سے بطور ممبر الیکشن کمیشن حکومتی ارکان نے خالد محمود صدیقی، جسٹس (ر) فرخ ضیاء شیخ اور اقبال محمود کے نام سامنے رکھے جبکہ اپوزیشن نے جسٹس (ر) عبدالرسول میمن، خالد جاوید اور جسٹس (ر) نور الحق قادری کے نام سامنے رکھے۔
اس دوران ایک تجویز یہ بھی آئی کہ ممبر الیکشن کمیشن سندھ کے طور پر اپوزیشن کو اپنی مرضی کرنے دی جائے جبکہ بلوچستان سے حکومت اپنی خواہش کے مطابق انتخاب کر لے مگر اس پر اتفاق نہ ہو سکا۔ جب ووٹنگ ہوئی تو دونوں طرف سے برابر ووٹ آئے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد مساوی ہے۔ نگراں وزیراعظم یا نگراں وزیراعلیٰ سے متعلق تو یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی میں بھی کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا جا سکتا ہے مگر چیف الیکشن کمشنر یا پھر الیکشن کمیشن کے ارکان سے متعلق یہ گنجائش موجود نہیں اور آئین اس حوالے سے خاموش ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق نہ ہو سکے تو کیا کیا جائے۔
ایسے مواقع پر بالعموم برسر اقتدار جماعت کی طرف سے وسعت قلبی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر تحریک انصاف کے ارکانِ پارلیمنٹ ابھی تک خود کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا محسوس کرتے ہیں جبکہ حزبِ اختلاف کے ارکان ابھی تک اقتدار کے خمار سے باہر نہیں آ سکے، اس لئے معاملہ اس کے برعکس ہے۔
اس دوران صدر عارف علوی نے خالد محمود صدیقی کی سندھ جبکہ منیر احمد کاکڑ کی بلوچستان سے بطور ممبر الیکشن کمیشن تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یہ نوٹیفکیشن آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی کے مترادف ہے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم میں صدر کا ’’استحقاق‘‘ ختم کر دیا گیا ہے۔
2013ء میں سپریم کورٹ کا ایک پانچ رُکنی بنچ بھی وضاحت کر چکا ہے کہ صدر استحقاق کی بنا پر چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے ارکان کا تعین نہیں کر سکتے۔ بہتر ہوتا کہ محولا بالا دونوں افراد ان حالات میں آئینی عہدوں پر غیر آئینی تقرری کے باعث معذرت کر لیتے کیونکہ نوٹیفکیشن ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان نے نہ صرف وزارتِ قانون اور وزارتِ پارلیمانی امور کو خط لکھ کر اس تقرری کو غیر آئینی قرار دیا بلکہ ان دونوں شخصیات کو بھی مراسلہ ارسال کر کے حقیقت ِحال واضح کرنے کی کوشش کی مگر یہ دونوں اصحاب اپنے عہدوں کا چارج لینے کے لئے الیکشن کمیشن پہنچ گئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے آئین کے مطابق تقرری نہ ہونے کے باعث ان دونوں افراد سے حلف لینے سے انکار کر دیا اور سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ وہ اپنے عہدوں کا چارج نہیں لے سکتے۔
وزیر قانون اور وزیر پارلیمانی امور کا اصرار ہے کہ یہ تقرریاں آئین کے مطابق ہوئی ہیں اور چونکہ پارلیمانی کمیٹیوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ عدلیہ کو بھیجنے کی گنجائش موجود نہیں اس لئے صدر مملکت نے ’’غیر جانبدار امپائر‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کیا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور صدرِ مملکت کا منصب غیر جانبداریت کا تقاضا تو ضرور کرتا ہے مگر ان عہدوں پر براجمان اشخاص اپنی پارٹی اور حکومت کے فیصلوں سے ہرگز انحراف نہیں کر سکتے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’غیر جانبدار امپائر‘‘ کا کردار ادا کرنے والے صدر عارف علوی نے سندھ اور بلوچستان دونوں عہدوں پر حکومت کے تجویز کردہ افراد کو تعینات کیا۔
اگر واقعی وہ ’’غیر جانبدار امپائر‘‘ ہوتے تو درمیانی راستہ نکالتے ہوئے ایک نام اپوزیشن جبکہ دوسرا نام حکومت کے تجویز کردہ پینل سے لیتے۔ چار ماہ بعد چیف الیکشن کمشنر کو ریٹائر ہونا ہے کیونکہ ان کی مدت دسمبر کے پہلے ہفتے میں ختم ہو رہی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے باقی دو ممبرز جن کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہے، کو بھی جون 2021ء میں ریٹائر ہونا ہے۔ گویا یہ اس نوعیت کا پہلا اضطراب نہیں بلکہ پارلیمانی روایات کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جانے کے لئے اب ایسے طوفاں آتے رہیں گے۔