Time 02 ستمبر ، 2019
پاکستان

مودی توں وڈا ظالم نیب

نام تحریک انصاف، 22سالہ جدوجہد، منشور، تبدیلی، احتساب، انصاف، ایک سالہ اقتدار، نتیجہ، تاجروں، بیورو کریٹوں کو نیب چھوٹ، مطلب خوابوں سے حقیقتوں کی طرف سفر جاری، احتساب آرڈیننس 1999ء ترمیمی مسودہ تیار، مسودے کا جائزہ بعد میں، پہلے یہ، صورتحال یہاں تک پہنچی کیسے، عمران خان وزیراعظم بنے، چیئرمین نیب سے پہلی ملاقات، فرمایا، جو نیب کر رہا وہ عبادت، کیا وجہ عبادتی نیب شرپسند ٹھہرا، ہوا یوں، جب وزیروں، مشیروں، معاونین، چہیتوں، اتحادیوں پر نیب تلوار لٹکی، انکوائریاں، پیشیاں، شروع ہوئیں، تب چہیتوں کے منہ عمران خان کے کانوں سے جا لگے، ہلکے سروں میں نیب کی شکایتیں، بات نہ بنی، بات آگے بڑھی، بات کھلم کھلا ہونے لگی، آئے روز نیب کی برائیاں، آہستہ آہستہ قائدِ انقلاب کو بھی عبادتی نیب مشکوک لگنے لگا، مشن نیب تراش خراش فروغ نسیم کے حوالے، پارلیمنٹ میں نیب قوانین ترمیمی کمیٹی بنی، دو چار اجلاس بھی ہوئے مگر اپوزیشن کی عدم دلچسپی، بات آگے نہ بڑھ سکی، اسی دوران معیشت آؤٹ آف کنٹرول ہوئی، عمران خان کا غصہ کابینہ اجلاسوں، میٹنگوں میں معاشی ٹیم پر، دو چار ماہ تو معاشی ٹیم طعنے، تنقید سہتی رہی، پھر یہ بیانیہ، معاشی ترقی کی رکاوٹ نیب، معاشی ٹیم وزیراعظم کو لے کر تاجروں، صنعتکاروں کے پاس جا پہنچی، وہاں بھی نیب ظلم دہائیاں، وہاں بھی نیب بچاؤ درخواستیں۔

ویسے تو ہر اجلاس، ہر میٹنگ میں بہانے بہانے نیب پر تبرا بازی جاری تھی، لیکن پچھلے مہینے وزیراعظم کی زیر صدارت سی پیک اجلاس، ملک بھر کے اہم بیورو کریٹ شریک، اختتامی لمحوں میں بیورو کریٹس نے وزیراعظم کو گھیرا، سب یک زبان بولے، نیب کا خوف، کوئی افسر کام کرنے پر تیار ہی نہیں، سب ٹھپ پڑا ہوا، منصوبے سست، فائلیں بے یار و مددگار، کچھ کریں، اس دن ماحول ایسا، مودی توں وڈا ظالم نیب، وزیراعظم کی تسلیاں، دلاسے، بتایا فروغ نسیم ترامیم حتمی مرحلے میں، اپوزیشن ساتھ نہ بھی دے، ہم صدارتی آرڈیننس لائیں گے، چند دن گزرے، ایل این جی ٹرمینل کیس میں شاہد خاقان عباسی کے بعد مفتاح اسماعیل اور پی ایس او کے سابق ایم ڈی عمران الحق کو نیب نے گرفتار کر لیا، دو دن بعد کابینہ اجلاس میں ڈبڈبائی آنکھوں، بھرائے لہجوں میں رزاق داؤد، خسرو بختیار کی زیر صدارت بہت سارے وزیروں، بیورو کریٹوں نے ایسا ماتمی سماں باندھا کہ وزیراعظم کو فروغ نسیم سے کہنا پڑا، بس بہت ہوگیا، اگلی کابینہ میٹنگ میں ہر صورت نیب ترامیم مسودہ لے کر آئیں، اس روز وزیراعظم نے بھی کہہ دیا ’’معیشت ناکامی کی وجہ نیب‘‘۔

یہ تھا نیب ترامیم کا مختصر ترین بیک گراؤنڈ، اب بات کر لیتے ہیں فروغ نسیم مسودے کی، تجویز یہ تاجروں کے جرم کی حد 50کروڑ، مطلب اگر جرم 50کروڑ سے کم، کیس نیب کے دائرہ کار سے باہر، وہ کیس جو نیب بند کر چکا، دوبارہ نہیں کھل پائے گا، ٹیکسوں، اسٹاک ایکسچینج معاملات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم، نیب سرکاری ملازمین کے خلاف صرف محکمانہ نقائص، فرائض میں غفلت پر کارروائی نہیں کر سکے گا، کارروائی اسی سرکاری ملازم کے خلاف جس نے غیر قانونی طور کوئی مالی فائدہ اٹھایا ہو، جس کے اثاثے ذرائع آمدنی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، نیب زیر حراست ملزم کا زیادہ سے زیادہ ریمانڈ 90دن کے بجائے 45دن، 3ماہ میں تفتیش مکمل نہ ہونے کی صورت میں احتساب عدالت گرفتار ملزم کو ضمانت دینے کی مُجاز، احتساب عدالت کو قبل از گرفتاری، بعد از گرفتاری ضمانت دینے کا اختیار، پلی بارگین، رضا کارانہ رقم کی واپسی کی منظوری وزیراعظم کی زیر نگرانی کمیٹی کرے گی، پلی بارگین کرنے والا شخص 10سال کیلئے عوامی عہدے، سرکاری ملازمت سے نااہل ہوگا۔

یہ چند اہم ترامیم، اب یہ رہنے دیں کہ احتسابی منشور والی تبدیلی سرکار، تاجروں، بیورو کریٹس کو نیب چھوٹ دینی چاہئے یا نہیں، اسے بھی رہنے دیں کہ دہری شہریت والے اپنے 20ہزار بیورو کریٹس اور ہر حکومت سے رعایتیں لینے والے ہر دو نمبری میں اول ٹیکس خور تاجروں کو نیب چھوٹ ملنا چاہئے تھی یا نہیں، اسے بھی رہنے دیں، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک جیسے ادارے اس قابل کہ وہ بااثر، بااختیار، دولت مند تاجروں، صنعتکاروں، سرمایہ کاروں سے کسی معاملے پر پوچھ گچھ کرنے کی جرأت کر سکیں گے، اسے بھی رہنے دیں کہ واقعی ایک سالہ معاشی ناکامی کی وجہ نیب یا نالائق، نااہل، کنفیوژ معاشی ٹیم، یہ سب ایک طرف، بات کرنے والی یہ، عمران حکومت کو ایک سال ہوگیا، سب سے اہم نعرہ احتساب تھا، ایک سال میں نیب کی کیا مدد کی، فروغ نسیم کتنی مرتبہ نیب کے ساتھ بیٹھے، کتنی بار نیب کے مسائل سنے، کتنے وائٹ کالر کرائم اسپیشلسٹ رکھ کر دیئے، نیب کو کتنے بہترین دماغوں کے ٹیکے لگائے، نیب کو کتنے بہترین وکیل سونپے، ذرا احتساب کی حالت تو ملاحظہ کریں، لاہور میں 5احتساب عدالتیں، کیس 366، اب اگر پانچوں احتساب عدالتیں کوئی چھٹی نہ کریں، مدعی، ملزم، گواہ، جج سب روزانہ عدالت آئیں تو ایک کیس کی دوسری مرتبہ باری 73ویں دن آئے لیکن موجودہ حالات، ایک کیس کی دوسری پیشی میں چھ چھ ماہ لگ رہے، حالت یہ، خواجہ سعد رفیق گرفتار ہوں 11دسمبر 2018کو، نیب ریفرنس فائل کرے 31مئی 2019کو، 3ماہ ہونے کو آئے ابھی تک چارج فریم نہ ہو سکا، فواد حسن فواد گرفتار ہوئے 5جولائی 2018کو، ریفرنس فائل ہوا 19مارچ 2019کو، 5ماہ ہوئے چارج فریم ہی نہ ہو سکا، احد چیمہ گرفتار ہوئے 21فروری 2018کو، 16اکتوبر 2018کو ریفرنس فائل ہوا، چارج فریم ہو 17جنوری 2019کو، ابھی تک 150گواہوں میںسے صرف 15کی گواہی ہو سکی، شہباز شریف گرفتار ہوئے 5اکتوبر 2018کو، 14فروری 2019کو ضمانت ہو، 18فروری 2019کو ریفرنس فائل ہو، 9اپریل 2019کو چارج فریم ہو، ابھی 46گواہوں میں سے صرف 5گواہیاں ہو سکیں، آپ ہی بتائیں، حالات یہ ہوں، اوپر سے نیب دباؤ میں، احتساب عدالتوں میں ارشد ملک، پس پردہ سفارشیں، قانونی سقم، چور رستے، پتلی گلیاں، تاخیری حربے، پیسے کا بے دریغ استعمال اور کیس نہیں فیس دیکھتی مہربان عدالتیں، بھلا کوئی کسی کا کیا اکھاڑ لے گا، ویسے ہو تو یہ پہلے ہی جانا چاہئے تھا لیکن کتنا اچھا ہوتا، اسی ترمیمی مسودے میں یہ بھی ہوتا کہ احتساب عدالتیں ماڈل کورٹس ہوں گی، روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل، مقررہ مدت کے اندر فیصلہ ہوگا، مگر یہ نصیب ہمارے کہاں، بہرحال دعا یہی تبدیلی سرکار کو یہ تبدیلیاں راس آ جائیں اور معاشی گاڑی چل پڑے۔

مزید خبریں :