05 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: وزارت قانون جس نے نیب آرڈیننس کی ترامیم تیار کی ہیں اس میں سینئر ترین افسر احتساب عدالت میں نیب ریفرنس کا سامنا کررہا ہے لیکن نیب انتقامی کارروائی کے خوف سے اس کی تقرری پر اعتراض نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اسی وزارت کے انتظامی کنٹرول کے تحت ہے۔
یہ اس ماضی کے برعکس ہے جب نیب نے جوائنٹ سیکریٹری کو ہٹانے کیلئے وزارت کو لکھا تھا جو کرپشن کے الزامات میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کر رہا تھا۔ بعد میں وزارت قانون سے ان کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔
نیب عہدیدار نے دوہرے معیار کو نمایاں کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ایک وزیر کو اس کے خلاف ریفرنس دائر کئے جانے کے بعد جلد استعفیٰ دینے کا کہا جاتا ہے لیکن ایک افسر جو پہلے ہی نیب ریفرنس کا سامنا کر رہا ہے اس کا تقرر سینئر ترین افسر کی حیثیت سے کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اور زیادہ مجرمانہ ہوجاتا ہے جب ملزم وزارت قانون کا سینئر ترین افسر ہو جس کا نیب کے انتظامی مسائل سے نمٹنے کے علاوہ احتساب عدالتوں کے ججوں کے تقرر میں بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔
بجٹ تجاویز سے لے کر دیگر امور تک یہ وزارت نیب اور حکومت کی دیگر شاخوں کے درمیان رابطہ رکھتی ہے۔ آفس مینجمنٹ گروپ کے 21 گریڈ کے ایک افسر اس وقت وزارت قانون میں سینئر ترین افسر ہیں۔
نیب نے انہیں 2016 میں ادویات کی قیمتوں میں غیرقانونی اضافے کے ذریعے سرکاری خزانے کو 1 ارب 7 کروڑ 80 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان پہنچاتے ہوئے 8 دوا ساز کمپنیوں کو مبینہ طور پر مالی فائدہ پہنچانے پر گرفتار کیا تھا۔ وہ 2012 میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے سربراہ تھے جب من مانی قیمت کا تعین کیا گیا تھا۔
ڈریپ کے دیگر افسران اور چار دوا ساز کمپنیوں کے مالکان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بعد ازاں ضمانت مل گئی لیکن یہ کیس بے نتیجہ رہا۔ اگر چہ دوا ساز کمپنیوں کے مالکان نے پلی بارگین کرتے ہوئے ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے ذریعے کمائی گئی ناجائز رقم واپس کردی، نیب نے انہیں اور دیگر سرکاری افسران کے خلاف ریفرنس دائر کردیا جو اس عمل میں ملوث تھے۔ اس کیس کا ٹرائل جاری ہے۔
دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بے گناہی کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے وکلاء ان کے خلاف کوئی بھی غلط اقدام ثابت نہیں کرپائے اس کے باوجود ان کا کیس لٹکا ہوا ہے۔ یہ ریفرنس جج محمد بشیر کی عدالت میں التواء کا شکار ہے جنہیں وزارت قانون کی جانب سے موجودہ عہدے پر کام جاری رکھنے کیلئے تین سال کی توسیع دی گئی ہے۔
ایک سال سے زائد کے عرصے سے وزارت میں موجود سینئر ترین افسر ، جو پہلے ایڈیشنل سیکریٹری کی حیثیت سے کام کررہے تھے اور اب سینئر ترین افسر کی قائم مقام ذمہ داری لی ہوئی ہے، کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کیس کیلئے کسی جج پر کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔ چنانچہ مفادات کا کوئی ٹکراؤ یا تنازعہ نہیں۔
دوسری جانب نیب افسران کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان شواہد کو اکٹھا کرکے اپنا کام کردیا ہے جو دیگر کے درمیان ان کے خلاف ریفرنس کی بنیاد بنے اور اب گیند احتساب جج کی عدالت میں ہے کہ آیا اس مقدمے میں تیزی آتی ہے یا یہ سست رفتاری سے چلتا ہے۔
ایک نیب عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارا کام چارج شیٹ جمع کرانا تھا جو کردیا گیا ہے، ابھی تک دلائل شروع نہیں کئے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب سینئر ترین افسر کے خلاف مقدمے کی جلد سماعت کیلئے عدالت کے سامنے درخواست دائر کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ مذکورہ سینئر ترین افسر کے مطابق جب بھی انہیں بلایا جاتا ہے وہ جج کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں اور یہ کہ وہ عدلیہ کی آزادی کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں۔
کسی حد تک اسی طرح کے ایک کیس میں نیب نے وزارت قانون میں جوائنٹ سیکریٹری کی تقرری پر اعتراض کیا تھا۔ وہ کیٹل مارکیٹ مینجمنٹ کمپنی ملتان میں بے قاعدگیوں کے الزامات کا سامنا کررہے تھے جہاں انہوں نے اہم عہدے پر خدمات سر انجام دیں۔ جب انکوائری کا آغاز ہوا تو انہیں نیب میں اس کے ڈائریکٹر ہیومن ریسورس کی حیثیت سے تعینات کردیا گیا۔ انہوں نے اپنے کیس کی تفتیش کیلئے مبینہ طور پر اپنے من پسند تفتیشی افسران کا تقرر کیا۔ چونکہ نیب حکام معاملے کو بھانپ گئے تھے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔