26 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا سال اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بڑا مایوس کن رہا۔ حکومتی امور میں شفافیت کے فروغ کیلئے اپنے پسندیدہ پروجیکٹ میں تک کارکردگی توقعات اور معیار پر پوری نہیں اتری ۔
ایک رپورٹ کے مطابق معلومات و اطلاعات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی لازمی شق پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔33 وفاقی وزارتوں نے ایکٹ کے تحت اپنی ویب سائٹ پر فیصد تک معلومات اپ لوڈ نہیں کیں۔ یہ ایکٹ جو آر ٹی آئی قانون کے نام سے معروف ہے 8 وزارتوں نے اس کے تحت درخواست گزاروں کی سہولت کیلئے انفارمیشن افسران کا تقرر کیا ہے جبکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن جو معلومات فراہم نہ کرنے والے محکموں سے نمٹتا ہے اسے اپنے فرائض کی موثر انجام دہی کیلئے ضروری وسائل فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔
یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ ، ایڈووکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ (ارادہ) کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ 28ستمبر کو معلومات تک رسائی کا عالمی یوم منایا جارہا ہے۔ وزارتیں اطلاعات کے 39 لازمی درجوں میں معلومات فراہم کرنے کی پابند ہیں۔
وفاقی آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 5 کے تحت وزارتیں مذکورہ درجوں میں معلومات دینے کی پابند ہیں۔ ان معلومات کے درجوں میں سرکاری اداروں کی تفصیلات ، فیصلہ سازی کا عمل اور شہریوں کے رد عمل و مشاورت کا نظام شامل ہیں۔ (ارادہ) نے اسے پیمائش کے مطور پر لیتے ہوئے ویب سائٹس پر دستیاب معلومات و اطلاعات کا تجزیہ کیا۔ معلومات کی فراہمی کے معاملے میں وزارت خزانہ کو سب سے زیادہ نمبر ملے۔ جو 48.72فیصد بنتے ہیں۔ اس کے بعد وزارت تجارت و ٹیکسٹائل اور وزارت آبی و سائل کے نمبر آتے ہیں۔
وزارت اطلاعات جو آر ٹی آئی سے متعلق معاملات کی انتظامی وزارت ہے۔ اس کا نمبر آٹھواں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داخلہ ، نیشنل فوڈ، سیکورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی اور پوسٹل سروسز کی وزارتیں آتی ہیں۔ انسانی حقوق کی وزارت معلومات دینے میں وزارت اطلاعات سے اوپر ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کے امور کی وزارت کی کارکردگی بدترین اور درجہ بندی میں آخری نمبر پر ہے۔ 33 میں سے 31 وزارتوں نے اپنے افسران سے رابطوں کی تفصیلات دی ہیں، ہر وزارت پر لازم ہے کہ وہ پبلک انفارمیشن افسر کا تقرر کرے۔ صرف 8 وزارتوں نے اس کی پابندی کی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان انفارمیشن نومبر 2018 میں قائم کیا گیا لیکن 10 ماہ گزرجانے کے باوجود اسے مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کئے گئے ستمبر 2019میں اس رپورٹ کے مرتب ہونے تک تین رکنی کمیشن عارضی طور پر کام کر رہا ہے۔ جو فیڈرل انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے ایک کمرے تک محدود رہے۔ کوئی تیکنکی عملہ آلات فراہم نہیں کئے گئے۔ وہ خود اپنے ویب پورٹل سے محروم ہے۔ ایسے میں استعداد بھی متاثر ہو رہی ہے اور بہتر کارکردگی توقع عبث ہے۔