02 اکتوبر ، 2019
کیا آپ بھی میری طرح یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ بلوچستان کی غربت اور پسماندگی دور کیوں نہیں ہوتی؟ معدنیات کے بےبہا ذخائر بلوچستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کا سبب کیوں نہیں بن پاتے؟ استحصال اور احساس محرومی کا سلسلہ ختم کیوں نہیں ہوتا؟ نظر انداز کئے جانے کے زخم ہرے کیوں رہتے ہیں؟ اور ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں یہ صوبہ سب سے پیچھے کیوں رہ جاتا ہے؟
سوالات تو بہت پیچیدہ ہیں مگر ایک نہایت آسان سی مثال کے ذریعے ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان ہر سال 52ممالک کو ماربل کی برآمد سے 20ملین ڈالر کماتا ہے۔ ماربل کی ماہانہ پیداوار کا تخمینہ ایک ملین ٹن لگایا جاتا ہے۔ روزانہ ڈھائی سے تین لاکھ ٹن ماربل بیرون ملک بھجوانے کے لئے بلوچستان سے کراچی لایا جاتا ہے کیونکہ ماربل انڈسٹری میں بلوچستان سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے۔
ماربل کے 90فیصد ذخائر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ ماربل کو نکالنے کے بعد اور برآمد کئے جانے سے پہلے پراسیسنگ پلانٹ میں لے جایا جاتا ہے۔ ان پراسیسنگ پلانٹس میں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد خام ماربل نہایت اعلیٰ کوالٹی کے ماربل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
آل پاکستان ماربل انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان بھر میں چھوٹے اور بڑے کُل ملا کر 1329 پراسیسنگ یونٹس ہیں چونکہ 90فیصد ماربل بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نکلتا ہے اس لئے زیادہ تر پراسیسنگ پلانٹس لسبیلہ، چاغی اور خضدار میں ہونے چاہئیں لیکن حقیقت اُس کے برعکس ہے۔ بلوچستان میں صرف 60چھوٹے ماربل پراسیسنگ یونٹ ہیں۔ گویا ماربل کی برآمدات میں 90فیصد شیئر رکھنے والے صوبہ بلوچستان کے حصے میں محض 4.5 فیصد پراسیسنگ پلانٹ آتے ہیں۔
اُس کے برعکس راولپنڈی اور اسلام آباد زون جس کا برآمدات میں شیئر ایک فیصد سے بھی کم ہے وہاں ماربل پراسیسنگ کے 150یونٹ ہیں۔ لاہور زون میں ماربل کی پراسیسنگ کے 535چھوٹے بڑے کارخانے ہیں۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کپاس کی فصل جنوبی پنجاب میں ہوتی ہے لیکن اگر جننگ فیکٹریاں کراچی میں ہوں تو یہاں کے لوگوں کے احساسات کیا ہوں گے؟
گندم اور چاول سمیت بیشتر غذائی اجناس کی پیداوار میں پنجاب کو سبقت حاصل ہے لیکن اتنی رائس اور فلور ملز پنجاب میں نہ ہوں جتنی خیبر پختونخوا میں ہوں تو مقامی افراد کے تاثرات کیا ہوں گے؟ استحصال اور امتیاز کا یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں۔ گرینائٹ اور سنگِ سلیمانی (Onyx)سمیت جتنی بیش قیمت معدنیات نکلتی ہیں، اُن کی پراسیسنگ کے کارخانے بلوچستان سے باہر ہیں۔
گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ سوئی میں ہے جس وجہ سے قدرتی گیس کو سوئی گیس کہا جاتا ہے، اِس لحاظ سے سوئی گیس کا مرکزی دفتر سوئی گیس فیلڈ یا پھر ضلع ڈیرہ بگٹی میں ہونا چاہئے۔ اگر وہاں امن و امان کا مسئلہ ہے تو کوئٹہ میں ہیڈکوارٹر بنانا چاہئے تھا لیکن سوئی سدرن کا مرکزی دفتر کراچی جبکہ سوئی ناردرن کا ہیڈ آفس لاہور میں ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر میں اکثر کہتا ہوں کہ اس بدقسمت صوبے کو لاشیں تو رقبے کے حساب سے ملتی ہیں مگر وسائل آبادی کے حساب سے۔ یہ استحصالی رویہ محض وفاقی حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ہر طبقے کی طرف سے بلوچستان کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
مثال کے طور پر لاہور میں مینڈک پکڑے جانے کی خبر بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اس پر ٹاک شوز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں کتنا ہی اہم واقعہ کیوں نہ پیش آجائے اسے کوریج نہیں ملتی۔ آپ پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان اور کوئٹہ کے ہونہار باکسر محمد وسیم کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔
عامر خان کو پاکستانی میڈیا نے برسہا برس سے سر آنکھوں پہ بٹھا رکھا ہے جبکہ کوئٹہ کے محمد وسیم جو ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے باکسر ہیں، ورلڈ چیمپئن رہ چکے ہیں، انہیں نمبر ون باکسر قرار دیا گیا اور اب بھی ٹاپ ٹین باکسرز میں شمار ہوتا ہے وہ جب اپنے حریف کو پہلے ہی رائونڈ میں ایک منٹ بیس سیکنڈ بعد ناک آئوٹ کرکے وطن واپس لوٹے تو کسی نے انہیں درخور اعتنا نہیں جانا۔ اگر سوشل میڈیا پر آواز نہ اُٹھائی جاتی تو قوم کبھی ان کے کارناموں سے آگاہ نہ ہوپاتی اور نہ ہی انہیں پذیرائی ملتی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بہت باصلاحیت شخص ہیں گو انہیں دریافت کرنے والوں کا میں ناقد رہا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ جب وہ مسلم لیگ (ن) میں تھے تو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھایا گیا؟ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ آپ میں جوہر قابل ہو تو پھر ہرقسم کی چھاپ پیچھے رہ جاتی ہے اور آپ کی کارکردگی آپ کی پہچان بن جاتی ہے۔
آپ محمد خان جونیجو کو دیکھ لیں، ضیاءالحق کے چنیدہ وزیراعظم تھے مگر کٹھ پتلی کہلانے کے بجائے تاریخ میں ایک خودمختار سربراہ حکومت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جام آف لسبیلہ جام کمال سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی اور پھر جب بھی کوئٹہ جانا ہو تو ان سے گپ شپ رہتی ہے۔
پہلی ملاقات میں ان کے ایک جملے نے متاثر کیا تھا کہ میں تختیاں لگانے کے بجائے ان کاموں پر زیادہ توجہ دے رہا ہوں جو بالعموم کارکردگی چارٹ پر ظاہر نہیں ہوتے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی بہت پیشرفت ہوئی ہے۔ بلوچستان نے پنجاب اور وفاق سے پہلے ترقیاتی بجٹ جاری کر کے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
کبھی پنجاب گڈ گورننس ماڈل کے طور پر پہچانا جاتا تھا مگر اب چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا موازنہ کریں تو کارکردگی کے اعتبار سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال پہلے نمبر پر جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سب سے آخر میں آتے ہیں۔ جام کمال کو اگر صوبے کی تقدیر بدلنی ہے تو انہیں لاہور اور کراچی آکر سرمایہ کاروں کو قائل کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں انڈسٹری لگائیں۔ جب تک صنعتیں نہیں لگتیں، کارخانے نہیں بنتے، جتنے مرضی فنڈز لگا لیں، بلوچستان کا احساس محرومی اور غربت دونوں ختم نہیں ہونگے۔