10 اکتوبر ، 2019
وزیر مملکت برائے سیفران و نارکوٹکس شہریار آفریدی نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد ڈی جی اینٹی نارکوٹکس فورس (ANF) کے ساتھ اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی تھی اور رانا ثناء اللہ کے متعلق منشیات اسمگلنگ اور اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہونے اور اس بارے میں ٹھوث ثبوتوں کے جو دعوے کیے تھے، اُن کی سچائی کا سب کو بے چینی سے انتظار ہے۔
وزیر صاحب نے اُس پریس کانفرنس کے علاوہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں قسمیں اُٹھا اُٹھا کر کہا کہ جو ANF نے کیا وہ بالکل درست اور ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کیا۔ کہا گیا تھا کہ ثبوتوں میں گرفتاری کے وقت بنائی گئی ویڈیو بھی موجود ہے لیکن عدالت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی آج تک اُس ویڈیو کو تلاش کر رہا ہے مگر وہ ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی۔
رانا ثناء اللہ کی گرفتاری اور منشیات کی برآمدگی کی جو کہانی ایف آئی آر میں درج کی گئی اور جو کہانی شہریار آفریدی اور ڈی جی ANF نے عوام کو سنائی، اب وہ کھوکھلی نظر آنے لگی ہے۔ اگر کوئی ویڈیو بنائی گئی تھی تو عدالت میں پیش کیوں نہیں کی جا رہی؟ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اُن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور ایک ایسا کیس اُن کے خلاف درج کیا گیا جو جھوٹ پر مبنی ہے۔ اب تک کی عدالتی کارروائی کو دیکھیں تو رانا ثناء اللہ کا کہا سچ لگ رہا ہے ۔ آج (بدھ کو) اُن کے وکیل کی طرف سے سیف سٹی پروجیکٹ کی جو تصاویر عدالت میں پیش کی گئیں، اُن کے مطابق اُن کا کہنا ہے کہ ان تصویروں نے استغاثہ کا کیس جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی کیس میں پہلے جج کی واٹس ایپ کے ذریعے اچانک تبدیلی نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے تھے۔
شہریار آفریدی کو میڈیا کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ثبوت پیش کریں جن کی موجودگی کا اُنہوں نے قسمیں اُٹھا اُٹھا کردعویٰ کیا تھا۔ آفریدی صاحب مذہبی رجحان رکھتے ہیں جس بنا پر میں اُن سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس معاملہ پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ضرور غور کریں گے کہ کہیں وہ کسی ایسے کام میں شریک تو نہیں جس میں کسی بے قصور کے ساتھ صرف سیاسی اختلاف کی وجہ سے ناانصافی کی جا رہی ہو۔
آفریدی صاحب کو اسلامی تعلیمات کا علم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ گواہی کی ہماری دین میں کیا حیثیت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں یقین دلایا گیا ہو کہ واقعی رانا ثناء اللہ منشیات اسمگلنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، اُن کی گاڑی کو روکا گیا، جھگڑا ہوا، گاڑی کی تلاشی لی گئی جس دوران رانا صاحب نے گاڑی کے پیچھے پڑے بیگ کو ANFاہلکاروں کی موجودگی میں کھولا اور کئی کلو ہیروئن نکال کر ANFکے سپرد کر دی۔ لیکن حقیقت جیسے جیسے کھل رہی ہے اس کیس میں الزام لگانے والوں کے برعکس ملزم سچا نظر آ رہا ہے۔
آفریدی صاحب کو چاہئے کہ وہ ایک بار پھر ANF، جو اُن کا ماتحت ادارہ ہے، اس سے پورے کیس کے ثبوت طلب کریں اور اس بات کا یقین کر لیں کہ اُن سے غلط بیانی نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو پھر عدالت کے سامنے تمام ثبوت پیش کریں، وہ ویڈیو بھی دنیا کے سامنے رکھیں جس میں ایف آئی آر کے مطابق رانا ثناء اللہ سے ہیروئن کی برآمدگی ریکارڈ کی گئی۔ لیکن اگر ANF ثبوت اُن کے سامنے پیش نہیں کرتا تو پھر متعلقہ حکام کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے میڈیا کے ذریعے عوام کو بتائیں کہ اُنہیں جھوٹ بتایا گیا۔
اس کیس کی سچائی تک پہنچنا اور سچ عوام کے سامنے رکھنا آفریدی صاحب کی دینی ذمہ داری ہے، چاہے اس کے لیے اُن کو وزارت سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑیں۔ اگر وہ ایسا کچھ نہیں کرتے اور رانا ثناء اللہ کے خلاف کیس ثابت نہیں ہوتا اور ’’ٹھوس ثبوت‘‘ سامنے نہیں آتے جو ابھی تک نہیں لائے گئے، تو پھرآفریدی صاحب قابلِ اعتبار نہیں رہیں گے۔ جھوٹ کی صورت میں اُنہیں عوام کے ساتھ ساتھ رانا ثناء اللہ سے بھی معافی مانگنا چاہئے۔
حال ہی میں ’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں رانا ثناء اللہ کا جیل سے جاری کردہ ایک بیان شائع ہوا جس میں اُنہوں نے اس کیس کو مکمل جھوٹ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں جیل کے ڈیتھ سیل (Death Cell) میں رکھا گیا ہے اور کسی دوسرے قیدی تک سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
رانا صاحب کا کہنا تھا کہ اس سال مئی میں اُنہیں اطلاع دی گئی تھی کہ چونکہ اُن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کو کچھ نہیں ملا سو اب مجبوراً اُن کے ساتھ پہلے والا طریقہ آزمایا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں شہریار آفریدی بھی پرانے طریقہ کو آزمانے کے لیے استعمال تو نہیں ہو گئے۔ کہیں اُن سے دھوکا تو نہیں ہو گیا؟