پاکستان
Time 20 اکتوبر ، 2019

ٹماٹر، خوشی سے لال ہے یا غصے سے؟


ملک میں منہگائی کا جن بے قابو ہے،  اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، چینی، دالیں، کوکنگ آئل،  پیاز، بھنڈی، کدو، بینگن اور مٹر سب ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔

ہم آپ کو سنائیں گے ٹماٹر کی کہانی، یہ لال سرخ ٹماٹر زمانے میں اپنی قیمت کی وجہ سے بدنام ہے، بازار میں ٹماٹر  130 روپےکلو ہے، کہیں کہیں یہ 150سے 180 روپے میں بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔

ملک میں  پرائس کنٹرول لسٹیں بیکار ہوگئیں ہیں اور شہری دکانداروں کی من مانی قیمتیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

بارشوں کی وجہ سے ٹماٹر کی فصل متاثر ہوئی ہے جس کے باعث حیدرآباد میں 20کلو ٹماٹر کی پیٹی 1100 روپے اوسط مل رہی ہے۔ یعنی کسان کو اپنی پیداواری لاگت کے  55 روپے مل رہے ہیں اور یہ  اتنی قیمت پر بھی خوش ہیں۔

کلو ٹماٹر کراچی لانے کا کرایہ 3 روپے ہے، 7 روپے اور خرچوں کے رکھ لیں تو قیمت بنی 65 روپے۔ بازار کی قیمت اس میں سے نکال لیں تو منافع کے 65 بچے، یہاں کاروباری سوچ ہے کہ کل کا پتہ نہیں جو کمانا ہے آج کما لو۔

ملک میں ٹماٹر کی سپلائی میں ہر صوبہ حصہ ڈالتا ہے جب کہ یہ ایران سے بھی آتا ہے۔ ماضی میں ٹماٹر بھارت سے بھی آتا تھا جو اس وقت بند ہے اور اب اس کی ضرورت بھی مقامی سطح پر منتقل ہوئی ہے لیکن یہ ضرورت کتنی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔

ہمارے ملک میں ٹماٹر کی 3 مہینے کی فصل لگانے کا فیصلہ قیمت دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آجکل قیمت زیادہ ہے اسے خوب لگایا جا رہا ہے۔ پروڈکشن آئے گی تو قیمت گر جائے گی۔ پیداوار کو مارکیٹ لانے کا خرچ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے زیادہ ہوجائے گا اس لیے ضائع کرنے پڑے گا۔

ٹماٹر کی قیمت ایک روپے سے 100 روپے سے زائد ہونے کی وجہ صرف اس کا انتظام ہے۔ ڈیمانڈ سپلائی کے توازن کو خراب کردو تو قیمت خودبخود بڑھ جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں آج کل بس اسی لیے 65 روپےکی چیز پر 65 روپے کا ہی نفع ہے اور ایسا صرف ہمارے انتظام کی وجہ سے ہے۔