میاں نواز شریف مشکوک سزاؤں کا حامل مجرم!!

احتساب عدالت کے جج نے سابق وزیراعظم اور دیگر کو ایون فیلڈ پراپرٹیز کرپشن، بے ایمانی یا غیر قانونی اقدام کے ذریعے حاصل کرنے کے الزام سے بری کیا تھا: فائل فوٹو 

اسلام آباد: نواز شریف قانون کے تحت مجرم ہیں لیکن ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں ان کی سزا احتساب عدالت کے جج کے اسکینڈل کی وجہ سے اور ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے مشکوک ہو جاتی ہے۔

پاناما کیس میں جے آئی ٹی کے گرد گھومتے تنازعات اور اور یہ دیکھے بغیر کہ وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے احتساب عدالتوں میں نواز شریف کے کیس غیر معمولی تھے؛ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس اور عزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے پہلے ہی مشکوک ہو چکے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے یہ پایا کہ سابق وزیر اعظم اور دیگر کو ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا اور فرد جرم ’’بالآخر برقرار نہیں رہ پائیں گے۔‘‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کیے گئے فیصلے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نیب کرپشن کے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’’درخواست گزاروں پر الزام تھا کہ انہوں نے کرپشن، بے ایمانی اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ خریدے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ (Section 9 (a) (iv) NAO, 1999 [4]) کے تحت کوئی ثبوت نہیں لا سکا۔

فیصلے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگرچہ استغاثہ نے احتساب عدالت کو بتایا ہے کہ مریم اپنے والد کی زیر کفالت تھیں لیکن احتساب عدالت کے فیصلے میں ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ثابت ہو کہ درخواست گزار نمبر دوم (مریم نواز) نے اُس وقت درخواست گزار نمبر اول (نواز شریف) کی مدد، معاونت یا سازش کی تھی جب 1993ء اور 1996ء میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حاصل کیے گئے تھے۔‘‘

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 6؍ جولائی 2018ء کو نیب کے دائر کردہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کرپشن ریفرنس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو آمدنی سے زیادہ اثاثوں کی بنیاد پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت رکھنے پر 10؍ سال قید اور بیورو کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر مزید ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج نے سابق وزیراعظم اور دیگر کو ایون فیلڈ پراپرٹیز کرپشن، بے ایمانی یا غیر قانونی اقدام کے ذریعے حاصل کرنے کے الزام سے بری کیا تھا۔ تاہم، نواز شریف کو اسلئے سزا سنائی گئی کہ وہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے لندن فلیٹس کیسے خریدے۔

لیکن ایسا کرتے ہوئے احتساب عدالت کے جج نے ٹھوس شواہد پر انحصار کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں پر مبنی شواہد اور حالات پر یقین کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ اعتراف کیا کہ متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں ایون فیلڈ کی ملکیت کا تعین کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ عدالت استغاثہ کی قیاس آرائی پر مبنی شواہد پر ہی انحصار کر رہی ہے۔

قیاس آرائی پر مبنی ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت نے پہلے یہ طے کرلیا کہ نواز شریف لندن پراپرٹیز کے مالک ہیں اور اس کے بعد فلیٹس خریدنے کیلئے وسائل کی وضاحت میں ناکامی پر انہیں سزا بھی سنادی۔ عزیزیہ اسٹیل ملز کیس اس وقت اسکینڈل زدہ ہوگیا جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا۔ مبینہ ویڈیو میں جج ارشد ملک کو یہ اعتراف کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ شریف کو ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود سزا دینے کیلئے ان پر دبائو ڈالا گیا تھا۔

اگرچہ ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے ارشد ملک کا تبادلہ ہوا اور ان کیخلاف انضباطی کارروائی بھی شروع کی گئی لیکن ویڈیو کا مواد دیکھ کر یہ تحقیقات نہیں کرائی گئی کہ آیا واقعی میاں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کسی دبائو کا نتیجہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایون فیلڈ کیس کے فیصلے میں احتساب عدالت نے ایک مرتبہ پھر نواز شریف کو سزا سنانے کیلئے قیاس آرائیوں پر انحصار کیا اور انہیں سات سال قید کی سزا سنائی۔

131؍ صفحات پر مشتمل فیصلے میں 10؍ مرتبہ لفظ قیاس استعمال کیا گیا ہے اور 13؍ مرتبہ قیاس آرائی استعمال کیا گیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے لفظ قیاس آرائی کے استعمال کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ قانونِ شہادت آرڈر (QESO) 1984ء اور اعلیٰ عدالتوں کے دیگر فیصلوں میں جہاں عدالت قیاس کر سکے وہاں خاکہ جات کو بطور مثال استعمال کیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کو فلیگ شپ انوسٹمنٹس کے دوسرے ریفرنس میں بری کر دیا لیکن ساتھ ہی یہ قرار دیا کہ استغاثہ نے کامیابی کے ساتھ یہ طے کر دیا ہے کہ میاں نواز شریف کیخلاف العزیزیہ کیس میں کرپشن اور بدعنوانی کے اجزاء موجود ہیں۔ عدالت نے اس ریفرنس میں نواز شریف پر 1.5؍ ارب روپے اور 25؍ ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا۔

مزید خبریں :