پی پی پی اور کراچی کی سیاست

50 سال کی ایک تجربہ کار سیاسی جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریاتی سیاست میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں— فوٹو فائل

یہ 1987کی بات ہے جب کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے تھے۔ کراچی کے نوجوانوں کی ایک تنظیم کے لوگ بینظیر بھٹو سے 70کلفٹن میں ملنا چاہتے تھے، ملاقات کا مقصد اس تنظیم کا پی پی پی کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی کو شکست دینا تھا۔ 

بےنظیر بھٹو نے ہامی بھر لی مگر آخری وقتوں میں رہنمائوں کے کہنے پر ملاقات ملتوی کردی گئی۔ بعد میں پی پی پی کراچی ڈویژن کے وفد نے ملاقات کی مگر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ الیکشن ہوئے تو اس نئی طلبہ تنظیم نے ’’حق پرست‘‘ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور شہری سندھ سے سب کا ہی صفایا کردیا۔ اس تنظیم کا نام مہاجر قومی موومنٹ تھا۔

کراچی کی اس بدلتی سیاست کے پیچھے کچھ تو پی پی پی کے پہلے دورِ حکومت کی بعض پالیسیوں کا عمل دخل تھا اور کچھ غیر سیاسی قوتوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ بدلتے سیاسی رجحان کا پہلا اشارہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات تھے جس میں مذہبی جماعتوں کے کئی سرکردہ رہنما غیر معروف سیاسی لوگوں سے شکست کھا گئے۔

پی پی پی کا قیام 30؍نومبر 1967کو لاہور میں عمل میں آیا جس میں کراچی کے کچھ بڑے ناموں میں معراج محمد خان، این ڈی خان، اسد کمال اصغر شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا بڑا زور تھا۔ 

1986-87میں ایم کیو ایم کے کئی لوگ بشمول بانیٔ متحدہ جیل میں تھے۔ بینظیر نے ان پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کو جو جیل میں تھے، پیغام دیا کہ ان مہاجر لڑکوں کا خیال رکھا جائے۔ پی پی پی کراچی کے سابق صدر مسرور احسن جو اس وقت جیل میں تھے، کویہ ٹاسک دیا گیا جو 1988میں پی پی پی، متحدہ اتحاد کی بنیاد بنا۔

1970کے الیکشن میں گو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد میں زیادہ نشستیں ملیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی دو قومی اور آٹھ صوبائی نشستیں کراچی سے جیتیں۔ اس وقت بھی پڑھے لکھے اردو بولنے والوں کی خاصی تعداد پی پی پی کے ساتھ تھی جن میں جمیل الدین عالی، حکیم سعید جیسے لوگ بھی شامل تھے۔

 بھٹو صاحب وزیراعظم بنے تو کچھ پالیسیوں نے ایک طرف مذہبی جماعتوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسے لسانی انداز میں پیش کریں اور کچھ پی پی پی کے رہنمائوں نے وہی کردار ادا کیا جو 1987میں کیا تھا۔ پہلے سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے بل پر مخالفت ہوئی اور پھر سندھ کے تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے تحت داخلے اور نوکریاں۔ 

بھٹو صاحب سندھ کے دیہی نوجوانوں کو آگے لانا چاہتے تھے۔ شاید اسی لئے اس کی میعاد دس سال رکھی گئی مگر شہری علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور کئی لوگ مارے گئے۔ 

اس وقت خود جماعت اور جے یو پی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ اس سیاست کے آگے چل کر نتائج خود ان کے لئے اپنی رخصتی کا سامان ہوں گے۔بھٹو نے فوری طور پر اردو بولنے والے دانشوروں کا اجلاس طلب کیا۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ چونکہ وہ مسئلے کی باریکی کو سمجھ گئے تھے لہٰذا انہوں نے سیاسی جماعتوں کے بجائے اردو بولنے والے ادیبوں اور شاعروں کو بلایا۔ ایک دستاویز پر دستخط ہوئے اور یہ طے پایا کہ دیہی اور شہری کوٹہ 60سے 40ہوگا۔ اس کے بعد صورتحال میں تو بہتری آئی مگر سیاسی طور پر جو بے اعتمادی تھی وہ دور نہ ہو سکی کیونکہ اسے نچلی سطح تک نہیں لے جایا گیا۔ دونوں فریقوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

بھٹو کو پھانسی کے بعد 1979میں ہی بلدیاتی الیکشن ہوئے تو پی پی پی کے حمایت یافتہ عوام دوست امیدواروں نے بڑی تعداد میں نشستیں جیتیں مگر میئر کے الیکشن کے وقت ’’فرشتوں‘‘ کے ہاتھوں دو کونسلروں کے اغوا نے پانسہ پلٹ دیا۔ مولانا عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، میئر اور پی پی پی کے عبدالخلق اللہ والا ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 1987میں انہی نوجوانوں میں سے ایک جو بینظیر بھٹو سے ملنا چاہتے تھے، ڈاکٹر فاروق ستار میئر منتخب ہوئے، ’’حق پرست‘‘کے پلیٹ فارم سے۔

 اب آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ مہاجر قومی موومنٹ بن چکی تھی۔پی پی پی جس کی کراچی کی قیادت نے جنرل ضیا کے خلاف بھرپور مزاحمت دکھائی۔ اپنا زور کھوتی چلی گئی۔ بدقسمتی سے پی پی پی نے کراچی کی سیاست میں اردو اسپیکنگ علاقوں پر زیادہ زور نہیں دیا حالانکہ ان کے پاس امیر حیدر کاظمی، اقبال حیدر، این ڈی خان، تاج حیدر، فوزیہ وہاب، مسرور احسن، کمال اصغر، نفیس صدیقی، عزیز میمن، راشد ربانی، خلیل قریشی، سہیل انصاری، وقار مہدی، محمود حیدر نقوی اور بیشمار لوگ متحرک تھے آج بھی پارٹی کے اندر سعید غنی، مرتضیٰ وہاب، شہلا رضا اور بہت سے موجود ہیں مگر پارٹی کا سیاسی بیانیہ شہری سندھ کو اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، خاص طور پر اردو بولنے والوں کو۔

ایم کیو ایم نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی ماری اور خوف و دہشت کے ذریعے شہر کو کنٹرول کرنا چاہا ۔ 2016کے بعد جو خلا پیدا ہوا اس کو پاکستان تحریک انصاف نے پر کیا۔ اس وقت PTIکے پاس کراچی کی20میں سے 14قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ 

پی پی پی، ایم کیو ایم اتحاد ختم کرانے اور لسانی نفرت بڑھانے میں کچھ دوسری قوتوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے مگر شہری وسائل پر اختیار شہری حکومت کا ہی بنتا ہے۔ بلدیاتی ادارے کمزور کرنے سے سیاسی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اداروں کو بااختیار بنانے سے پی پی پی ووٹر کو اپنی جانب راغب کرسکتی ہے۔

50 سال کی ایک تجربہ کار سیاسی جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریاتی سیاست میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم ہی جمہوریت کو مضبوط کرسکتی ہے۔

مزید خبریں :