18 دسمبر ، 2019
انڈیا میں 1955سے شہریت کا ایک قانون نافذ تھا ،11دسمبر 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اِس قانون میں ترمیم کر دی ، اب قانون ایسے تمام غیر مسلموں ،جن میں ہندو، سکھ، ، بدھ ، جین، پارسی اور عیسائی شامل ہیں، کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ چھ سال بعد شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں بشرطیکہ اُن کا تعلق پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے ہواور وہ 31دسمبر 2014سے پہلے بھارت آ گئے ہوں.
گویا اِن تین ممالک سے وہ مہاجرین جن کا تعلق اِن چھ مذاہب میں سے کسی ایک سے ہو اور وہ چھ سال سے زائد مدت سے بھارت میں بغیر کسی دستاویزات کے ہوں اب بھارتی شہریت کے اہل ہوں گے۔بظاہر اِس میں کوئی عجیب بات نہیں لگتی بلکہ یوں لگتا ہے جیسے بی جے پی کی حکومت کو ہمسایہ ممالک میں رہنے والی اقلیتو ں کا بہت درد ہے سو بھارتی حکومت نے ایسی اقلیتوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں ،مگر حقیقت اِس سے بالکل مختلف ہے۔
بھارتی شہریت کے تر میم شدہ قانون نے مسلمانوں کی بھارتی شہریت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے اور وہ یوں کہ 1948تک پاکستان سے آنے والے مہاجرین کو بھارتی شہریت کی سہولت حاصل تھی چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، پھر بنگلہ دیش بننے کے بعد بھارت نے کہا کہ جو بھی مہاجر 1971تک بھارت آ جائے گا اسے بھی بھارتی شہریت مل جائے گی.
سو اِس دوران لاکھوں مہاجرین مشرقی پاکستان سے بھارتی ریاست آسام میں آئے۔اگست 2019میں بھارت نے آسام میں تازہ نیشنل سٹیزن رجسٹر (NCR) جاری کیا جس کے تحت انیس لاکھ مسلمانوں کو اُن کی شہریت سے ہی محروم کر دیا گیا کیونکہ وہ یہ ثابت کرنے میں ’’ناکام ‘‘ رہے تھے کہ وہ 24مارچ1971سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے ۔
شہریت کے نئے قانون کے تحت اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوں تو کوئی بات نہیں ،انہیں دستاویزی ثبوت کے بغیر بھی بھارتی شہریت کے اہل سمجھا جائے گا لیکن اب جبکہ یہ مسلمان ہیں تو انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ یہ اصلی ہندوستانی ہیں ، انہیں ثبوت دیناہوگا کہ اِن کے باپ دادا برسوں سے یہاں رہتے آئے ہیں ،وہ بھومی پتر ہیں ،انہیں کوئی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ، زمین کی ملکیت یا ایسی ہی دستاویزات پیش کرنا ہوں گی۔
انوپم کھیر ٹائپ کا متعصب ہندو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون کی ضرورت ہے اسے پورا کیا جانا چاہیے مگر زمینی صورتحال بالکل اِس کے برعکس ہے کیونکہ یہ NCR ہی مضحکہ خیز ہے.
اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے سابق صدر فخر الدین علی احمد کا ایک بھتیجا بھی اس رجسٹر سے باہر ہے گویا اب اسے بھی بھارتی شہریت ثابت کرنی ہوگی جس کا چچا 1974میں ہندوستان کاصدر تھا۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی خواہش ہے کہ2024تک بنگال آسام کی طرح پورے ملک کا NCRایسا بنایا جائے جس سے ایک ایک ’’درانداز ‘‘کا پتا چل سکے تاکہ اسے بھارت سے نکال باہر کیا جا سکے.
اب اگر بی جے پی اپنے اِس منصوبے کو آگے بڑھاتی ہے تو شہریت کے نئے قانون کے تحت اگلے مرحلے میں بھارت میں دو قسم کے غیر قانونی مہاجرین ہوں ، ایک مسلم مہاجرین جنہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھارتی شہری کیسے بنے اور دوسرے غیر مسلم مہاجرین جن کا تعلق اگر پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہوا تو انہیں بھارتی شہریت لینے کے لیے دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ہو سکتا ہے اِس مرحلے میں شاہ رُخ خان ، عامر خان اور سلمان خان کو بھی ثابت کرنا پڑے کہ وہ بھومی پتر اور ہندوستانی شہری ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ ثابت نہ کر سکیں بالکل اسی طرح جیسے ہندستانی سپریم کورٹ میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ 1528سے 1856-7تک مسلمان بابری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے ۔
اس پورے معاملے کے دو پہلوؤں سے مجھے خاص دلچسپی ہے ، ایک تو وہی پرانی بحث کہ کیا محمد علی جناح کا مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا فیصلہ درست تھا اور کیاہمیں ’’تھینک یو جناح ‘‘ کا ہیش ٹیگ چلانا چاہیے ۔ میری رائے میں یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں.
بھارتی مسلمانوں پر ظلم عظیم ہو رہا ہے ،تاریخ کی ایک فاشسٹ حکومت وہاں منظم طریقے سے مسلمانوں کے گرد شکنجہ کس رہی ہے ، ایسے میں ہمیں انہیں مزید کسی بڑے انسانی المیے سے بچانے کی ضرورت ہے ، ہم یہ کام کر سکتے ہیں یا نہیں ایک علیحدہ بحث طلب بات ہے مگر کم ازکم اُن کے زخموں پر نمک پاشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ کو درست تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے .
سن 47ء سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب پاکستان کی شکل میں ایک عظیم اسلامی مملکت وجود میں آئے گی تو بھارت میں کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو گزند پہنچا سکے ۔اب اُس عظیم اسلامی مملکت کا حال ہمارے سامنے ہے.
ہمارے اپنے شہری محفوظ نہیں ہندوستانی مسلمانوں کی حفاظت کہاں سے کریں گے۔رہی سہی کسر ہندوتوا کے فلسفے نے پوری کر دی ہے جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب 47ء میں مسلمان اپنے حصے کا ملک لے کر علیحدہ ہو گئے تو اب اُن کا بھارت میں کیا کام،یہاں تو ہندو راج ہی چلے گا۔
دوسرا پہلواِس معاملے کا یہ کہ ہمیں بھی کچھ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ، بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اُس پر بہت بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کے ساتھ کچھ زیادہ مختلف سلوک نہیں کرتے ، جناح نے ہمیں جو پاکستان دیا تھا اُس کا اسپیکر ہندو اور کابینہ کے بیشتر ارکان غیر مسلم تھے۔
جناح صاحب نے اپنی تقاریر میں سیکولر ازم کا لفظ چاہے نہ استعمال کیا ہو مگر وہ سر تا پا سیکولر تھے ، یہ اور بات ہے کہ آج کے پاکستان میں اگر جناح صاحب اپنا وہ لائف اسٹائل اپنانے کی کوشش کرتے جو اُن کا بمبئی یا کراچی میں تھا تو کوئی بعید نہیں تھا کہ اُن سے بھی کوئی لونڈا وضاحت مانگتا کہ مسٹر جناح ذرا بتائیں تو آپ کا عقیدہ کیا ہے ۔۔۔اور پھرپوری ریاست تماشہ دیکھتی؟