05 جنوری ، 2020
ہم لوگ بھی عجیب ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں، حال چال پوچھتے ہیں اور جواب میں کہتے ہیں کہ ہم بالکل ٹھیک ہیں، لیکن جونہی گفتگو آگے بڑھتی ہے تو ہم اپنی تکلیفیں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں، خاندان کی پریشانیوں کا احوال بتانے لگ جاتے ہیں، کاروبار کے بکھیڑے سنانے شروع کر دیتے ہیں اور دوستوں سے شکایتوں کا دفتر کھول دیتے ہیں۔
اِس قسم کی گفتگو کے دوران اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اِس کا مطلب ہوا کہ آپ اپنی زندگی میں خوش نہیں تو ہم فوراً پینترا بدل لیں گے اور بات یوں گھمائیں گے کہ الحمدللہ میں تو بہت خوش ہوں، میرا بچہ ہمیشہ اول آتا ہے (نجانے کیوں آج کل اسکولوں میں ہر بچہ ہی پوزیشن لیتا ہے) میری حال ہی میں ترقی ہوئی ہے.
والدین کو حج پر بھیج رہا ہوں، بہن کی منگنی کر دی ہے، بیوی نے آن لائن کاروبار شروع کر دیا ہے، وغیرہ۔ اب بندہ پوچھے کہ پہلے جو شام غریباں برپا کر رہے تھے اُس پر افسوس کروں یا بعد میں جو کامیابیاں گنوائیں اُن پر خوشی کا اظہار!
کون خوش ہے اور کون نہیں، اِس بات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے، لوگوں کی مادی ترقی کا اشاریہ تو بنایا جا سکتا ہے مگر خوشی کا کوئی ایسا اشاریہ بنانا جس پر لوگوں کو پرکھ کر نتیجہ نکالا جا سکے کہ کون اپنی زندگی میں مسرور اور شاداں ہے، تقریباً ناممکن کام ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی رویے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
لہٰذا کوئی ایسا پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا جو انسانوں کو چیک کرکے بتا سکے کہ اِن دس بندوں میں سے فلاں فلاں اپنی زندگی میں مطمئن ہے اور فلاں مایوس ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں البتہ ایک عالمی اشاریہ مرتب کیا گیا ہے جس میں دنیا کے ممالک کی درجہ بندی اُن کے شہریوں کی خوشی کے مطابق کی گئی ہے مگر یہ اشاریہ خاص وقت میں کسی فرد کی اپنی ذاتی خوشی کی کیفیت کو ریکارڈ کرکے بنایا گیا ہے، اِس سے انسانی خوشی ماپنے کا کوئی مستقل کلیہ نہیں بنایا جا سکا۔
اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خوشی کو صحت کے ساتھ ماپا جا سکتا ہے، یعنی خوشی ماپنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صحتمند ہے تو مطلب وہ خوش ہے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی دولت یا کامیابی کا کوئی بھی امکان کسی ایسے شخص کے لیے بے معنی ہے جسے صحتمند زندگی میسر نہیں۔
یہ بات اِس حد تک درست ہے کہ صحت زندگی کے لیے بنیادی شرط ہے، صحت مند ہونا خوش رہنے کے لیے ضروری ہے مگر صحتمند ہونے کا احساس انسان کو روزانہ کی بنیاد پر خوشی فراہم نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو کوئی بھی ایسی چیز جسے آپ ایک مرتبہ حاصل کرکے خوشی کشید کر چکے ہوں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی خوشی میں کمی آجا تی ہے.
مثلاً بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اُس روز ماں باپ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خوشی اُس سطح پر برقرار نہیں رہتی جو اُس کی پیدائش کے پہلے گھنٹے میں تھی۔
خوشی کی کیفیت کو ہم تین طریقوں سے پہچان سکتے ہیں، پہلا، کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہونا خوشی کی علامت ہے، مثلاً اگر کسی کی کمر میں مستقل تکلیف رہتی ہے، کسی کا بچہ نا فرمانی کرتا ہے، کسی کے والدین بیمار ہیں یا کسی کا محبوب روٹھ گیا ہے تو یہ سب تکلیف دہ باتیں ہیں جو خوشی کے احساس کو کم کر دیتی ہیں، تکلیف ذہنی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی، ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی، سو زندگی میں جس قدر تکلیف زیادہ ہوگی، خوشی کم ہو گی...
خوشی کا دوسرا پیمانہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں موجود اُن امکانات کا تعین کریں جو آپ کو مرضی کی زندگی گزارنے میں مدد دیتے ہیں، مطلب، اگر آپ کو خواہشات کی تکمیل میں مشکل پیش نہیں آتی اور آپ من پسند زندگی گزار رہے ہیں تو پھر آپ مسرور ہیں، گویا خوشی اُس صلاحیت سے کشید کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر کوئی شخص زندگی کا فیصلہ آزادانہ اور اپنی خواہش کے مطابق کر سکتا ہے.
ہمارے پاس مرضی کی زندگی گزارنے کا اختیار جتنا زیادہ ہوتا ہے، خوشی بھی ہمیں اتنی ہی حاصل ہوتی ہے۔ خوشی ماپنے کا تیسرا طریقہ کامیابی کا احساس ہے، اپنے متعین کردہ مقصد کو پانے سے بھی خوشی حاصل ہوتی ہے، جب کوئی شخص اپنے لیے کوئی ہدف مقرر کرتا ہے تو اس ہدف کے حصول کو پانے سے وہ خود کو کامیاب محسوس کرتا ہے سو کامیابی کا یہ احساس ہی خوشی کا باعث بنتا ہے۔ یہ ہدف کچھ بھی ہو سکتا ہے.
مثلاً کوئی شخص اپنی دکان کی بکری بڑھانے کو کامیابی سمجھ کر خوش ہو سکتا ہے اور کوئی شخص اِس بات پر مسرور ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کی آگاہی بڑھ رہی ہے جس سے زمین کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔
یہ ضروری نہیں کہ انسان کسی انفرادی ہدف کے حصول سے ہی خوشی حاصل کرے، بعض اوقات اجتماعی ہدف کا حصول بھی خوشی کا باعث بنتا ہے اور کبھی کبھی اُس نظریے کی شکست مایوسی کا سبب بنتی ہے جس کی آپ نے حمایت کی ہو۔
دراصل انسانوں اور جانوروں میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ انسان اپنے کنبے سے باہر لوگوں کے بارے میں بھی فکرمند ہوتا ہے اور ایک اجتماعی فلاح اُس کے پیش نظر ہوتی ہے، جو انسان اِس سوچ سے عاری ہو اُس میں اور جنگل کے جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انفرادی خوشی کے لیے تو سر پیر مارتے ہیں مگر اجتماعی خوشی کے حصول کے لیے چاہتے ہیں کہ یہ کام ہمارے لیے کوئی اور شخص کرے.
مثلاً ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو مگر جب اِس کام کے لیے عملاً کچھ کرنے کا موقع آتا ہے تو اُس وقت ہم بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور سر جھکا کر رکوع بلکہ سجدے میں گر جاتے ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حصے کی جدوجہد کوئی نڈر صحافی کرے اور ہمارے جمہوری بیانیے کو پہناوا کوئی سچا کھرا جج پہنا دے۔
ہمیں کوئی کام کرنا نہ پڑے اور بادل نخواستہ اگر کسی مرحلے پر کچھ کرنا پڑ ہی جائے تو پھر ہم سے کسی قسم کی حریت پسندی کی امید نہ رکھی جائے، ہم وہ ہیں جو سو جوتے بھی کھاتے ہیں اور سو پیاز بھی اور پھر اُس اسٹرٹیجی پر ماتم بھی کرتے ہیں کہ’’خوشی‘‘ کیوں نہیں مل رہی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)