یہی ہے پاکستان کہانی!

فوٹو: فائل

2014، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیخلاف احتجاج، پولیس اور مظاہرین میں تصادم، اندھا دھند ڈنڈے مارتی پولیس کا مظاہرین کو گرفتار کرنا، درجنوں گرفتار، مظاہرین میں ملتان کا سلطان نامی شخص بھی، سلطان پر دہشت گردی کا پرچہ کٹا، تھانے، کچہریوں کے چکر شروع ہوئے۔

4سالہ مقدمہ بازی، سلطان کو 5سال قید بامشقت، ایک سال جیل کے بعد سلطان کا بھکر جیل میں بیمار پڑنا، جب جیل حکام کا دیکھنا کہ سلطان کا چیک اَپ نہ کروایا تو یہ مر جائے گا، تب چار و ناچار اسے جیل اسپتال شفٹ کرنا، جیل ڈاکٹر کا معائنے کے بعد کہنا، مرض میری سمجھ سے باہر، سینئر ڈاکٹر سے معائنہ کروایا جائے، جیل حکام کا بات سنی اَن سنی کر دینا، سلطان کی طبیعت زیادہ خراب ہونا، سلطان کے رشتہ داروں کا جیل حکام کی مٹھی گرم کرنا، سلطان کا سینئر ڈاکٹر سے معائنہ ہونا، ٹیسٹ، سٹی اسکین، رپورٹ آنا، پتا چلنا سلطان کو برین ٹیومر، اب ایک بار پھر سلطان کے رشتہ داروں کا جیل حکام کی مٹھی گرم کرنا، سلطان کو نشتر اسپتال داخلے کی اجازت ملنا، ہتھکڑیوں میں جکڑے سلطان کو اسپتال لانا، یہاں میڈیا کی نظر پڑنا، ٹی وی کیمروں کا دکھانا، میلے کچیلے کپڑے، بڑھی شیو، اُڑے بال اور ہتھکڑیوں میں جکڑا اسپتال بیڈ پر پڑا سلطان۔

سلطان سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے کہاں کہاں مارا مارا پھرتا رہا، اس کا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کیا تعلق، پُرامن احتجاج کرتے ہوئے اسے کیوں گرفتار کر لیا گیا، اس پر دہشت گردی کا مقدمہ کیوں بنا، اسے کتنی رشوت کے عوض رہائی کی آفر ہوئی، یہ پیسوں کا کیوں انتظام نہ کر سکا، اسے کتنی بار پھینٹی لگی، اسکا برین ٹیومر کتنا تشویشناک اسکے زندہ رہنے کے کتنے چانسز، یہ کہانی ایک طرف رکھیں۔ 

اس وقت بتانا یہ، پولیس تصادم کا الزام، 4سال کی مقدمہ بازی، 5سال سزا، برین ٹیومر، اسپتال بیڈ پر بھی ہتھکڑیاں، یہ ہے ہمارا گلا، سڑا نظام، یہ ہے ہمارا اندھا قانون، یہ ہے غریب کی اوقات، پھر ہمیں بتایا جائے کہ قانون کی نظر میں طاقتور، کمزور سب برابر، خاک برابر، اندازہ کریں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کو ابھی تک انصاف نہیں ملا، جن حکمرانوں کے دور میں سانحہ ماڈل ہوا، وہ آزاد، جن افسروں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیا، وہ بھی آزاد، دن دہاڑے ہوئے 14قتلوں کا کچھ نہ بنا لیکن انصاف کیلئے پُرامن احتجاج کرتا سلطان پکڑا گیا، مقدمہ چلا، سزا ہوئی۔

اگر سلطان نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف ہوتا، یہ سراج درانی، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم ہوتا، باقی چھوڑیں، یہ وکیل، ڈاکٹر ہی ہوتا، تب یہ دورانِ احتجاج پولیس کو پھینٹی لگا کر بھی بے گناہ ہوتا، آپ دیکھ چکے، اسلام آباد میں ایک سینیٹر پولیس اہلکار کو تھپڑ مار کر آزاد، ایک وکیل پولیس والے کا سر پھاڑ کر آزاد، لاہور میں لیگی ایم این اے پولیس کو پھینٹی لگا کر آزاد، مگر خود کو پولیس کے ڈنڈوں سے بچاتا سلطان پکڑا گیا۔

ویسے ہماری پولیس بھی کمال کی، بڑوں کی نوکر، بااختیاروں کی چاکر، صاحبوں کی خدمتیں کرے، ماریں کھائے، لیکن غریب ہتھے چڑھیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال ہو جائے، حتیٰ کہ ذہنی مریض صلاح الدین دورانِ تفتیش پھڑک جائے، اگر سلطان سیاستدان ہوتا، اس کے پیچھے جماعت ہوتی، اس کے پیچھے بلاول کی شعلہ بیانیاں ہوتیں، مریم کے ٹویٹ ہوتے، اگر سلطان ڈاکٹر یا وکیل ہوتا، اسکے پیچھے جتھے ہوتے، تب سلطان پولیس کو دو چار لگا کر بھی پکڑا نہ جاتا۔

 پکڑا جاتا تو چھوٹ جاتا، چھوٹتا نہ تو سزا نہ ہوتی، سزا ہو جاتی تو اسکی جیل وی آئی پی ہو جاتی، اس کے میڈیکل بورڈ بنتے، سیون اسٹار ماحول میں ٹیسٹ، معائنے ہوتے، وفاقی کابینہ میں اسکی بیماری پر بحث ہوتی، وزیراعظم کو رحم آتا۔

وہ کابینہ اجلاس میں دعا کرواتے، ٹویٹ فرماتے، پنجاب حکومت کراچی، اسلام آباد سے ڈاکٹر منگواتی، یاسمین راشد روزانہ سلطان کی صحت کے بارے میں قوم کو آگاہ کرتیں، بڑے بڑے دانشور، فلسفی، افلاطون سلطان کی بیماری کو ملک، نظام، جمہوریت، پارلیمنٹ، فیڈریشن سے جوڑ کر نوحے پڑھتے، قوم کی آنکھیں بھیگ جاتیں، دل پسیج جاتے، سب ملکر ریلیف کے رستے نکالتے اور آخرکار سلطان اپنے ڈاکٹر ڈیوڈ رمیش لارنس کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچ جاتا۔

مگر چونکہ سلطان سیاستدان، بیورو کریٹ، وکیل، ڈاکٹر، بااختیار، پیسے والا نہیں تھا، اسلئے اس کا پُرامن احتجاج دہشت گردی کے زمرے میں آیا، اسے 4سال ایسی ذہنی اذیت ملی۔

اسے یوں ذہنی ٹارچر سے گزارا گیا کہ آخرکار یہ ذہنی مریض ہوا، یہی پرانا پاکستان، یہی نیا پاکستان، یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان، یہی ریاست مدینہ، یہی تبدیلی، آپ کے علم میں ہوگا، ابھی کل ہی معزز وکلاء پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (دل کے اسپتال) پر حملہ آور ہوئے تھے، ڈاکٹروں کو پھینٹی لگائی، نرسوں کی ’عزت افزائی‘ کی، اسپتال کے شیشے توڑے، ایمرجنسی دروازہ توڑ کر آئی سی یو میں گھسے، مشینیں توڑیں، آکسیجن سلنڈر دور پھینکے، مریضوں کے منہ سے ماسک نوچے، فیاض چوہان کو مارا، یاسمین راشد کو اسپتال میں داخل نہ ہونے دیا۔

اس سب پر پنجاب حکومت نے صوبائی وزیر راجہ بشارت کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی، اس کمیٹی کی رپورٹ آچکی، پتا ہے کمیٹی رپورٹ کا لب لباب، خلاصہ کیا، وہ یہ، سارا قصور پولیس کا، اگر پولیس معزز وکلاء کو بروقت روک لیتی تو یہ سب نہ ہوتا، کیوں کیسا ہے۔

چونکہ وکیل طاقتور لہٰذا وہ بے گناہ، چونکہ ڈاکٹر تگڑے لہٰذا وہ معصوم، چونکہ پولیس گھر کی مرغی دال برابر، لہٰذا پولیس قصوروار، گو کہ سزا پولیس کو بھی نہیں ملے گی، مگر یہی پولیس جو بڑوں کے سامنے بھیگی بلی بنی رہے۔

جب اسی پولیس کے ہتھے صلاح الدین، سلطان جیسے چڑھیں تو یہی بھیگی بلی یکایک شیر بنے، بڑوں کی چاکریاں کرتی پولیس غریبوں کیلئے ہر وقت ہر لمحہ، ہر جگہ فرعون۔

اگر سلطان بااختیار ہوتا، یہ مجرم ہو کر بھی ہماری عدالتوں کی ہمدردی کا مستحق ٹھہرتا، اس کیلئے چھٹی والے دن عدالت لگتی، اسکے جرم کے فل اسٹاپ، کامے، ڈسکس ہوتے، اسکے مرض پر سیر حاصل بحث ہوتی، صبح سے شام تک سماعت ہوتی، سلطان کے علاج کرنیوالے ڈاکٹر عدالت میں پیش ہوتے، اس کی صحت کا چپہ چپہ، کونا کونا ڈسکس ہوتا۔

مگر چونکہ سلطان نواز شریف، آصف زرداری نہیں تھا، کوئی بڑا، کوئی بااختیار، کوئی وکیل، کوئی ڈاکٹر نہیں تھا، لہٰذا بستر مرگ پر بھی اس کی ہتھکڑیاں نہیں کھل رہیں، یہی ہے پاکستان کہانی، ایک طرف 2فیصد سلطان اور دوسری طرف 98فیصد سلطان جیسے بے اوقات ہے۔

مزید خبریں :