11 جنوری ، 2020
اِن دنوں امریکا ایران کشیدگی اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے، ایک وقت تھا ایسی قربتیں تھیں کہ گویا مڈل ایسٹ میں امریکا کے لیے ایران ہوائی جیسی ایک ریاست ہو مگر رضا شاہ پہلوی کے بعد خمینی کا ایران ’’شیطان بزرگ‘‘ اور ’’مرگ بر امریکا‘‘ کے نعروں میں پروان چڑھا، نتیجتاً وہ ایران جو کبھی ماڈریٹ اپروچ کی علامت تھا، جدت کے بجائے شدت اور قدامت پسندی کی پہچان بن گیا۔
مظلوم ایرانی قوم کو اتنی قربانیوں کے بعد سوائے ڈگمگاتی معیشت، طویل جنگی جنون، مذہبی و سیاسی جبر، غربت، افلاس، مہنگائی، لاچارگی، قصے کہانیوں، طفل تسلیوں اور سیراب جیسی تصوراتی جنت کے اور کیا ملا۔
ایران محض خمینی انقلاب سے شیعہ نہیں ہوا، شاہ کا ایران بھی شیعہ ایران ہی تھا اور آئندہ اگر کوئی نئی تبدیلی وارد ہوتی ہے تب بھی اِس کی یہ مذہبی شناخت مسخ نہیں ہوگی، اِس کے ساتھ پاکستانی عوام ایران کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں جو دشمنیوں، اسلحہ بندیوں یا مذہبی تفرقوں کی تنگناؤں سے اوپر اٹھتے ہوئے اقوامِ عالم میں امن و سلامتی کے لیے کردار ادا کر سکے۔
اگر ایران امریکا تناؤ مزید بڑھتا ہے تو ہم پاکستانیوں میں بھی اِس سے ایک نوع کی پریشانی، تشویش اور اضطراب بڑھے گا اس لیے حکومتِ پاکستان کا حالیہ کردار بڑا متوازن رہا ہے جس کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ایران سے تناؤ میں کمی کی کوششوں پر امریکا پاکستانی حکومت اور عمران خان کا معترف ہے جبکہ عالمی رہنما ایرانی سپریم لیڈر کو بہتر فیصلے لینے پر آمادہ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
جس روز عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کا سانحہ ہوا امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے اُسی دن ہمارے آرمی چیف کو فون کرتے ہوئے افغانستان اور خطے کی صورتحال پر جس طرح اعتماد میں لیا، اِس سے آنے والے دنوں میں پاکستان کی اہمیت اور کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ایران کے لیے 63سالہ جنرل قاسم سلیمانی کی اہمیت اِس امر سے واضح ہے کہ وہ بیرون ملک عسکری کارروائیاں کرنے والی مختلف مسلح تنظیموں کو تربیت و رہنمائی فراہم کرنیوالی ’’القدس بریگیڈ‘‘ کے گزشتہ دو دہائیوں سے چیف چلے آرہے تھے، یمن میں لڑنے والے حوثی باغی ہوں یا عراق و شام میں مسلح ملیشیا یا فلسطین میں حماس اور لبنان کی حزب اللہ سب سے اُن کے قریبی روابط تھے اور وہ جتنے اندرونِ ملک مقبول تھے اُس سے زیادہ اِن جنگجو تنظیموں میں تھے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی منظوری سے جس طرح دوحا سے چلائے گئے میزائل نے بغداد میں ’’القدس بریگیڈ‘‘ کے چیف کو ٹارگٹ کیا ہے یہ یقیناً افسوسناک سانحہ ہے۔ بلاشبہ امریکا سب سے بڑی عالمی طاقت ہے تو اُس کی قیادت کا عالمی رویہ بھی زیادہ ذمہ دارانہ ہونا چاہئے، اگر اُسے قاسم سلیمانی کے عسکری کردار پر اعتراضات تھے تو یہ مسئلہ سلامتی کونسل عالمی عدالتِ انصاف یا دیگر دوست ممالک کے ذریعے ایرانی قیادت کے سامنے اٹھایا جا سکتا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اتنی غیر ذمہ دارانہ کارروائی کا حکم دے کر امریکی حکومت اور امریکی قوم کے لیے سوائے منافرت کے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ ایرانی قیادت نے بلاشبہ سخت بدلہ لینے، پوری امریکی فوج کو دہشت گرد قرار دینے یا امریکا کو سبق سکھانے کے لیے اس کے اہداف کو نشانہ بنانے کی بات کی اور عراق میں درجن بھر میزائل حملے ہوئے بھی لیکن حکومتِ پاکستان نے ایرانی بھائیوں کو صبر، حوصلے اور دانش مندی سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے دیگر عالمی طاقتوں نے بھی ایران کو جنگی جنون روک کر مذاکرات پر آنے کے لیے کہا ہے کیونکہ اگر بدلے کی آگ زیادہ بھڑکتی ہے تو خطے میں انسانی بربادی کو کوئی نہ روک سکے گا۔
اِن دنوں ہر دو اطراف سے 52اور 290 کی آوازیں اٹھ رہی ہیں حالانکہ دونوں سانحات انسانیت کے ماتھے کا کلنک تھے، اگر ایرانیوں نے اتنی طویل مدت تک امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنائے رکھا تو کوئی بھی اس کی حمایت یا تحسین نہیں کر سکتا، اسی طرح امریکی میرین نے مسافر طیارہ تباہ کرتے ہوئے جو انسانیت سوز حرکت کی خود امریکی عوام میں اس کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور امریکی حکومت کو بالآخر اس پر اظہار افسوس کے ساتھ بھاری معاوضہ بطور ہرجانہ دینا پڑا مگر انسانی جانوں کی تلافی ڈالروں سے نہیں ہو سکتی۔
ہماری آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے، اتنی شعوری ترقی کے باوجود ہمارے اندر رواداری و برداشت کے انسانی اوصاف پیدا نہیں ہو سکے۔ انفرادی اور قومی ہر دو سطح پر ہم جبر، دھونس اور بندوق کی طاقت سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں اس سے عدم تشدد کا فلسفہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
درویش کی نگاہیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ اگر قاسم سلیمانی کے بدلے کی آگ نے زور پکڑا تو امریکیوں کا کچھ بگڑے نہ بگڑے مڈل ایسٹ میں بربادی ضرور ہو گی، کیا ایران اس کا متحمل ہو سکے گا؟ کیا اس کے بعد مسلم امہ کی یکجہتی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا؟ کیا امریکہ ایران آویزش کئی ایک نئی آویزشوں کو جنم نہیں دے گی؟