17 جنوری ، 2020
کراچی: صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ سندھ پولیس کا مزاج قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرح ہو گیا ہے کہ جو بولے اس کے کیخلاف کارروائی کرو۔
کراچی میں پریس کا نفرنس کرتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ میرے علاقے میں منشیات کا کاروباربڑھ رہا تھا، کوشش کے باوجود ڈی آئی جی سلطان خواجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی، ایڈیشنل آئی جی سے بھی ملاقات کی کوشش کی مگرنہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی کو ہٹانےکے لیے کابینہ کے فیصلے پربات کی تورپورٹ سامنے آگئی، پریس کانفرنس تو پہلے رکھی تھی پر تھوڑی دیرپہلے ٹی وی پر رپورٹ چلی ہے، 2018 میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹ چھپی تھی اور چنیسرگوٹھ میں سیاستدانوں کی منشیات فروشوں کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اُس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو خط لکھا کہ حقائق کیا ہیں، کارروائی کی جائے لیکن خط کا جواب نہیں دیا گیا، اس کے بعد ایک بار پھر انہیں خط لکھا تاہم پھر بھی جواب نہیں دیا گیا ہمیں دانستہ طورپراس معاملے میں گھسیٹاگیا۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر رضوان ایس ایس پی جمشید ٹاؤن لگے تھے تو انہوں نے میرے چھوٹے بھائی و یوسی کے چیئرمین فرحان غنی کو بلایا اور کہا کہ 8 موٹر سائیکلیں لے کردیں اور چنیسرگوٹھ میں چوکی بناکردیں، ساتھ ساتھ پولیس کے لیے مخبری کریں اور علاقے کے لوگوں کے نام دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس دو، 3 جرائم پیشہ افراد کے ساتھ 20 بے گناہوں کو بھی اٹھالیتی تھی، ایک شخص ایم کیوایم چھوڑ کرپیپلزپارٹی میں آیا توپولیس اس کے پیچھے پڑگئی، جرائم پیشہ افراد کو پکڑنا پولیس کاکام ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا ہوں صوبہ سندھ کی پولیس کا مزاج نیب کی طرح ہو گیا ہے، جو آپ کے خلاف بولے اس پر کارروائی کرو۔
سعید غنی نے اپیل کہ وزیراعلیٰ سندھ مجھ پر لگے الزامات کی مکمل انکوئری کرائیں، اگر یہ رپورٹ درست ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
آئی جی سندھ کے حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی طرح اپوزیشن پارٹی بن گئی ہے اور آئی جی سندھ ہماری اپوزیشن کے تیسرے رہنما بن کر ابھرے ہیں لہٰذا آئی جی کو اپنے موجودہ طور طریقوں پر پولیس سے استعفیٰ دینا چاہیے تاکہ کھل کر اظہار رائے کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکری کرنی ہے تو اپنے رویے تبدیل کریں، ان رویوں کے ساتھ سرکاری نوکری نہیں ہوسکتی نہ ملازمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں، آئی جی سندھ اس وقت بہت زیادہ متنازع ہیں، پولیس افسران جس انداز سے کام کررہے ہیں وہ تشویشناک ہے، پولیس افسران باقاعدہ اپوزیشن رہنماؤں کو بریف کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ کابینہ نے آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کو عہدے سے ہٹاکر ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دی تھی جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سندھ کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ ہمارے پاس آئی جی کو رخصت کرنے کی کئی وجوہات تھیں اور حکومت نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے آئی جی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔