22 جنوری ، 2020
آج سے تقریباً 300 سال پہلے نظام الملک آصف جاہ نے حیدرآباد ریاست کی بنیاد رکھی اور دکن کے حکمران بنے، ہر بادشاہ کی طرح اُنہوں نے بھی اپنا قانون بنایا اور ریاست کی فوج کھڑی کی، دکن کے حکمران کی حیثیت سے تمام انتظامی اور عدالتی اختیارات آپ کی ذات میں مرتکز تھے۔
ہر قسم کی سول اور فوجی تعیناتی آنجناب فرماتے تھے۔ اپنی مملکت کو نواب صاحب نے تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ اُن کی ذاتی جاگیر بن گیا، دوسرے حصے کو انہوں نے حکومت کے اخراجات کے لیے مختص کردیا اور تیسرے حصے کو آپ نے مسلمان جاگیرداروں میں تقسیم کر دیا، یہ شرفا جواب میں نواب صاحب کو نذر نیاز پیش کیا کرتے تھے اور نظام الملک کے ایما پر عطیہ کردہ زمینوں سے محصول اکٹھا کرتے تھے۔
نظام الملک کی دولت میں اضافے کا ایک ذریعہ ہیرے کی کانیں بھی تھیں جہاں سے بیش بہا مالیت کے ہیرے دریافت ہوئے، اِس کے علاوہ نظام کی اپنی جاگیر سے آمدن کی تو خیر کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ یہ اُس ریاست کی آمدن تھی جس کا کُل رقبہ اکٹھے انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے بھی زیادہ تھا، یہ نظام تقریباً سوا دو سو سال تک یونہی چلتا رہا۔
ساتویں نظام میر عثمان علی خان کا شمار تاریخ کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے، ایک تخمینے کے مطابق آج کے حساب سے آپ کی دولت تقریباً 210ارب ڈالر کے برابر تھی، آنجناب کی امارت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نواب صاحب کے پاس جو ہیرے جواہرات تھے اُن سے اولمپک کے سائز کا سوئمنگ پول بھرا سکتا تھا۔
جیکب نام کا ایک ہیرا آپ کے پاس تھا جو کوہ نور سے دو گنا بڑا تھا، ایک مرتبہ موصوف کو اپنے والد کے جوتوں میں چھپایا ہوا بطخ کے انڈے کے برابر ہیرا ملا جسے بعد ازاں آپ نے بطور پیپر ویٹ استعمال کیا، حیدر آباد میں آپ کے نام کا سکہ (حقیقت میں ) چلتا تھا جسے ’’عثمانیہ سکہ‘‘ کہتے تھے۔
میر عثمان علی خان کو حیدر آباد کا سب سے دانشمند، مستعد اور مہربان حکمران سمجھا جاتا ہے، اُنہوں نے ریاست میں پہلی مرتبہ سزائے موت ختم کی، عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی جس کا شمار آج بھی بھارت کی معتبر درسگاہوں میں ہوتا ہے۔
پہلی مرتبہ عثمان علی خان نے عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کیا، باقی ہندوستان میں یہ کام 53سال بعد جا کر ہوا، اُنہوں نے ریاست میں ڈاک کا نظام قائم کیا، ریلوے لائن بچھائی، سڑکیں بنوائیں، اسپتال اور کالج بنائے، بجلی گھر تعمیر کیا، اپنا بینک بنایا، صنعتیں لگائیں، عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے کام کیے، شاعروں ادیبوں کے وظیفے لگائے۔
بے شمار اداروں کو عطیات دیے جن میں جامعہ نظامیہ، دارالعلوم دیو بند، بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، امرتسر گولڈن ٹیمپل، شانتی نکیتن شامل ہیں۔ غرض ایک خیر اندیش حکمران کو عوا م کے لیے جو کچھ کرنا چاہئے عثمان علی خان نے شاید وہ سب کچھ کیا۔
ریاستِ حیدر آباد بظاہر ایک مثالی ریاست تھی، میر عثمان علی خان ایک مہربان اور فیاض حکمران تھے، فہم و فراست بھی اُن میں تھی، انگریزوں کے آنے کے بعد (غالباً اُس وقت کے) نظام نے سکندر آباد چھاؤنی میں موجود انگریز فوج سے معاہدہ کر لیا تھا اور اپنی ریاست کے تحفظ کے عوض ایک رقم مقرر کر لی تھی جو انگریزوں کو ادا کر دی جاتی۔
ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو میر عثمان علی خان نے انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے سے انکار کر دیا، انڈین حکومت نے کہا کہ آزاد ریاست کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ عوام کی رائے جاننے کے لیے ایک استصواب کروایا جا سکتا ہے کہ آیا وہ انڈیا کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا نہیں۔
نظام حیدر آباد نے یہ پیشکش قبول نہیں کی، جواباً ہندوستان کی حکومت نے حیدر آباد پر چڑھائی کر دی، نواب صاحب کی فوج چار دن نہیں نکال سکی، پانچویں دن حیدر آباد دکن ہندوستان کی جھولی میں آگرا۔
یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر میر عثمان علی خان ایسے ہی ہر دلعزیز اور مثالی حکمران تھے تو پھر عوامی رائے جاننے میں کیا امر مانع تھا، استصواب کی پیشکش ایسی غلط تو نہیں تھی کہ جسے رد کیا جاتا، نظام حیدر آباد نے ریاست کے لیے ہر وہ کام کیا جسے وہ ریاست اور اُس کے عوام کے مفاد میں بہتر سمجھتے تھے پھر انہیں عوام کی رائے جاننے میں دلچسپی کیوں نہ ہوئی؟
عین ممکن ہے کہ حیدر آباد کے عوام بھاری اکثریت سے عثمان علی خان کے حق میں ہی رائے دے دیتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نئی ہندوستانی حکومت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے، اصل سوال مگر یہ نہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ ہم لوگ ایسے نظام کو آئیڈئیلائز کیوں کرتے ہیں جس میں پورا نظام ایک آدمی کی نیک نیتی کی بنیاد پر کھڑا ہو، کبھی ہمیں عمان کا سلطان قابوس پسند آ جاتا ہے تو کبھی کسی خلیجی ریاست کا بادشاہ، کبھی ہم چاہتے ہیں کہ نظام حیدر آباد جیسا کوئی خیر اندیش حکمران ہمیں مل جائے تو کبھی ہم خلیفہ ہارون الرشید کی آرزو کرتے ہیں۔
ہماری اِس خواہش میں ہی اصل خرابی پوشیدہ ہے، دنیا میں نظام لوگوں کی نیک نیتی پر نہیں چلتے بلکہ اداروں کے چیک اینڈ بیلنس سے چلتے ہیں، ایک مثالی نظام وہ نہیں ہوتا جس میں ایک مہربان اور سخی حکمران اپنی مرضی سے عوام کے لیے ڈیم، سڑکیں اور بجلی گھر بنائے، ایک بہتر نظام وہ ہوتا ہے جس میں کسی شخص یا ادارے کے اختیارات کا جائزہ عوام کے منتخب نمائندے وقتاً فوقتاً لیتے رہیں۔
عمان کا سلطان قابوس ہو یا حیدر آباد کا عثمان علی خان، لوگوں کے لیے اگر یہ بادشاہ جنت بنا دیں تو بھی وہ قابلِ قبول نہیں کیونکہ ایسی جنت میں رہنے کے اصول ایک شخص کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوں گے۔
ممکن ہے سلطان قابوس اور عثمان علی خان بہترین حکمران ہوں مگر انہوں نے حکمرانی کا کوئی ماڈل نہیں دیا، پچاس سال حکمرانی کے بعد سلطان قابوس جاتے ہوئے اپنا جانشین بھی نامزد کر گئے۔
اب کیا عمان کے عوام دعا کریں گے کہ یہ نیا حکمران بھی سلطان قابوس کی طرح دانشمند اور پرہیز گار ہو؟ بالفرض محال اگر اُن کی دعا قبول نہ ہوئی تو کیا انہیں سلطان کو ہٹانے کے لیے احتجاج کا حق حاصل ہے، جی نہیں، عمان کی ’’جنت‘‘ میں ایسا کوئی حق نہیں۔
سو ہمیں سلطان قابوس چاہئے اور نہ عثمان علی خان کی جنت،ہمیں ایک ایسا نظام مملکت چاہئے جس میں دعاؤں سے کام چلانے کی ضرورت نہ پڑے، دنیا نے یہ ماڈل کئی سو سال پہلے بنا لیا تھا، ہم نے صرف اسے بلا تعطل چلنے دینا ہے، روز تبرا نہیں کرنا۔