ذرّے سے کہکشاں بننے کی کہانی

فوٹو: فائل

پاکستانی قوم میں جہاں جھوٹے، جعلساز وغیرہ بکثرت نظر آتے ہیں وہیں اگر غور سے دیکھیں اور تلاش کریں تو جواہر پارے بھی موجود ہیں، اسی ملک نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبیل انعام یافتہ) پروفیسر رضی الدین صدیقی، پروفیسر عمر سیف اور اس خاکسار کو اہم اور مشکل کام کرنے کی صلاحیت دی۔

اسی طرح میڈیکل فیلڈ اور تجارت میں اس ملک نے لاتعداد نہایت اعلیٰ دماغ پیدا کیے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ میرا تعلق کراچی (اور ریاستِ بھوپال) سے ہے۔ میں نے کراچی کے لاتعداد نہایت کامیاب بزنس مین دیکھے جو شروع میں نہایت معمولی نوکریاں کرتے تھے، سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں پر گھومتے تھے مگر سخت محنت، سمجھ بوجھ سے کام لے کر ملک کے اعلیٰ ترین بزنس مین بنے اور اَرب پتی ہیں۔

سب سے اچھی اورقابلِ تحسین بات یہ ہے کہ کیونکہ یہ خود ’’غربت‘‘ سے نکل کر اَمیر ہوئے ہیں ان کو غربیوں کی ضروریات و پریشانیوں کا پورا احساس ہے اور دل کھول کر فلاحی کاموں میں پیسہ خرچ کرتے ہیں۔

جب بھی کسی غریب بچی کی شادی ہو یا غریب بچوں کی فیس کا معاملہ ہو، یہ نیک بندے بلا جھجک بڑی رقوم خاموشی سے دے دیتے ہیں۔ میں ان میں سے کسی سے بھی درخواست کرتا ہوں تو بغیر کسی سوال جواب کے مانگی ہوئی رقم کا چیک ان کےپاس سے آجاتا ہے۔

اسی کٹیگری میں لاہور کے ایک نہایت قابل ڈاکٹر، پروفیسر ڈاکٹر اختر سہیل چغتائی بھی ہیں۔ انہوں نے ایک نہایت اعلیٰ، بین الاقوامی معیار کی ڈائیگناسٹک لیبارٹری بنائی ہے۔ میں نے اس کو وزٹ کیا، دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی تھی۔ اس پر انہوں نے تقریباً ایک ارب روپیہ خرچ کیا ہے۔ یہ ان کے وژن کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈاکٹر چغتائی کی مہارت Histopathology میں ہے اور اس میں انھوں نے M.Phil کیا ہوا ہے۔

بطور ایشیائی ہم کامیاب کہانیوں کی تلاش میں مغرب کی جانب رجوع کرتے ہیں جہاں سے اکثر کہانیاں مل بھی جاتی ہیں لیکن میں نے سوچا کیوں نہ پاکستان سے بھی اَن کہے (unsung)ہیروز کو بھی متعارف کرایا جائے جنہوں نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ ذرّے سے کہکشاں بننے کا خواب دیکھنا اور زندگی میں ہی اُسے پالیناکیسے ممکن ہوتا ہے۔

یہ ایک پاکستانی، پکے لاہوری پروفیسر ڈاکٹر اختر سہیل چغتائی کی متاثر کن جدوجہد، ناکامیوں اور کامیابیوں سے مزین دلچسپ داستان ہے جو اُن نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے جو محض نوکری کرنے کے بجائے دوسروں کو روزگار دینے والے بننا چاہتے ہیں۔ زندگی نے پروفیسر ڈاکٹر اختر سہیل چغتائی کی کیسے تراش خراش کی انہی کی زبانی سنتے ہیں۔

1972میں جب ادارے قومیا لیے جانے کی آندھی چلی تو ہیوی مشینری لگانے کا ہمارا سیٹ اَپ سرکار کے قبضے میں چلا گیا اور ہم سڑک پر آگئے۔ نہ کسی سیاسی خاندان کی چھتری اور نہ ہی کسی بیوروکریٹک سیٹ اَپ کی کشور کشائی میسر تھی، اولاد کا پیٹ پالنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود والدین صاحبِ علم و ادراک تھے لہٰذا مایوسی سے کوسوں دور رہے۔ انہوں نے امید کی نئی شمع روشن کرکے جدوجہد کی راہ اپنا لی اور ہمیں ہمراہ لے لیا۔ والدہ ماجدہ نے اخلاقیات و ایمانداری کاسبق دیا جبکہ والد صاحب نے رہنمائی کی۔ انھوں نے یہ قول راسخ کروادیا ہرمشکل کی وجہ اپنی غلطی ہے۔

حلال کمانا، سخت محنت کرنا، کبھی کمی نہ ہوگی۔ ایف ایس سی میں ہی گھر میں بنائی لیباریٹری میں مینڈک پر تجربے، آکسیجن، ہائیڈروجن گیسوں اور تیزابوں کے ٹیسٹ کرنا تو جیسے بائیں ہاتھ کا جادوئی کھیل بن گیا۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پہلی چوائس نیورو سرجن بننا تھی لیکن خدا کوکچھ اور ہی منظور تھا۔ گزرتے وقت میں شعبۂ طب کے مختلف مضامین کی لو سے دماغ کے پردے روشن ہوتے چلے گئے جس موضوع کو بھی چھوا ایک عمیق اور انوکھا جہاں پنہاں پایا۔

سیکھنے کی بھوک اس قدر شدید تھی کہ دل کبھی کچھ کرنے کو مچلتا اور کبھی کچھ۔ ایک روز استاد محترم ڈاکٹر فاروقی لیکچر دے رہے تھے، ماحول خواب کا سا تھا۔ طرزِ تدریس اتنا جادوئی تھا کہ جیسے وہ پیتھالوجی پڑھا نہیں بلکہ کوئی اینی میٹڈفلم دکھا رہے ہوں۔ بیماری یا کسی زخم کی وجوہات و اثرات کے بارےمیں اس منظم، مرتب اور ٹھوس انداز سے وہ آگاہ کررہے تھے کہ سب کچھ دماغ کے نہاں خانوں میں جذب ہوتا چلا جا رہا تھا۔

اس علم کی روشنی نے سارے اندھیرے ہڑپ لیے۔ حقیقی مسیحائی محض نسخہ لکھنا نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر مرض کی درست تشخیص کرنا ہے، وہ بڑی گہرائی اور مدلل انداز سے سمجھا رہے تھے۔ اچانک وہ میرے قریب آکر یوں گویا ہوئے، صرف جواب یاد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا حقیقی علم کی بنیادی شرط سوال کو مکمل طور پر سمجھنا ہے جو یہ جان گیا سب کچھ پا گیا۔

بجلی کا ایک کوندا لپکا اور میرے دماغ کے پروسیسر نے اپنی منز ل متعین کرلی یعنی میں پتھالوجی کیلئے بنا تھا، میں نے پالیا۔ ٹیوشن پڑھا کر 30ہزار روپے جمع کیے اور 40ہزار کا سامان ادھار لے کر لاہور میں کرائے کے دو کمروں میں ڈائیگناسٹک لیبارٹری بنا ڈالی۔ پاگل پن کی حد تک خوش تھا جیسے کوئی آسکر ایوارڈ مل گیا ہو لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی پارٹنر شپ ٹوٹ گئی اور سب کچھ چلا گیا۔

درس و تدریس سے کبھی ناتا نہ توڑا۔ آج بھی پیتھالوجی پہلا پیار اور اسٹوڈنٹس دوسرا پیار ہیں۔ دوبارہ زندگی ملے تو بھی یہی کام کروں گا۔ دوبارہ کام شروع کیا اور اب تک ملک بھر کے پچاس شہروں میں آئی ایس او 5189سرٹیفائیڈ، 7ٹیسٹنگ لوکیشنز، 160کولیکشن سینٹرز بناچکے ہیں۔ کالج آف امریکن پیتھالوجی ایکسٹرنل کوالٹی ایشورنس پروگرام سے الحاق شدہ ہیں

مزید خبریں :