02 فروری ، 2020
’’قومی احتساب بیورو (نیب) ایک استحصالی ادارہ بن چکا ہے، اس ادارے کو بنانے کا مقصد ختم ہو چکا ہے‘‘ یہ ریمارکس کسی سیاستدان کے نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کے ہیں، جو انہوں نے اگلے روز ایک کیس کی سماعت کے دوران دئیے۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کو ایک بہتر قانون بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اب یہ حکومت اور قانون ساز اداروں کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ احتساب کا ایک ایسا قانون بنائیں جس سے حقیقی احتساب کا مقصد بھی حاصل ہو اور اس قانون کو کوئی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال بھی نہ کر سکے۔
نیب آرڈیننس کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ آرڈیننس سمیت پاکستان میں احتساب کے جتنے بھی قوانین ہیں، ان کا بنیادی جوہر بدنیتی تھا کہ پاکستان میں سیاست اور جمہوری عمل کو پنپنے نہ دیا جائے۔ اس کے لیے سیاستدانوں کو ہی احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جائے، جو سیاستدان طاقتور حلقوں کی بات نہ مانے یا حقیقی عوامی سیاست سے باز نہ آئے، اس کو احتساب کے شکنجوں میں جکڑ دیا جائے اور جو سیاستدان اشاروں پر چلنے کے لیے تیار ہو، اسے ہر قسم کی کرپشن کی اجازت کے ساتھ ساتھ پارسائی کی سند عطا کر دی جائے۔
1949ء میں اس مقصد کے لیے پبلک اینڈ رپریزنٹیٹو آفس ڈس کوالیفکیشن ایکٹ (پروڈا) نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد احتساب کا جو بھی قانون بنا، اس میں بنیادی جوہر پروڈا والا ہی رہا۔ اس کے بعد ایبڈو اور پوڈو جیسے سیاہ قوانین نافذ کیے گئے، جو پروڈا کا چربہ تھے۔ قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کے بارے میں اب تک اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے جو ریمارکس سامنے آئے ہیں، ان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھی کوئی قانون نہیں ہے۔ 2001ء اور 2002ء میں اس میں جو ترامیم کی گئیں، ان کی وجہ سے مزید خرابیاں پیدا ہوئیں۔
جب سیاستدانوں، ماہرین ِ قانون اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نیب آرڈیننس 1999ء پر اعتراضات اٹھائے تو یہ کہہ کر ان اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا کہ معترضین دراصل ’’کرپٹ لوگوں‘‘ کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے نیب زیادہ متحرک ہوا اور اس کے بنائے گئے ریفرنسز اور مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں گئے تو فاضل جج صاحبان نے اس قانون کی خامیوں کی نشاندہی کرنا شروع کی۔
ایک نہیں درجنوں بار اعلیٰ عدالتوں نے نیب کی کارکردگی اور نیب کی ناانصافیوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور اسے سیاسی انتقام اور استحصال کا ادارہ قرار دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کریں اور احتساب کا کوئی شفاف اور کم خامیوں والا قانون بنائیں۔ احتساب کو سیاست سے الگ کریں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ’’احتساب‘‘ کے نعرے پر مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔ جس احتساب کا نعرہ تحریک انصاف نے لگایا اس کے پیچھے بھی ایک سیاست ہے۔ اس سیاست کے وہی مقاصد ہیں، جو اب احتساب کے قوانین بنانے والوں کے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ نیب آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرے، جو انصاف کے تقاضوں اور قانونی روایات کے مطابق ہوں کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت پر بعض حلقوں کی طرف سے پروپیگنڈا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے احتساب کے ایجنڈے سے ہٹ گئی ہے لیکن حکومت کو اس بات کی پروا کیے بغیر وسیع تر قومی مشاورت کے ذریعہ نیب آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنا چاہئیں، جن سے یہ محسوس ہو کہ پاکستان ایک مہذب ملک ہے، جہاں انسانی حقوق کے منافی کوئی قوانین نہیں بنائے جاتے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک شخص کو دس سال تک جیل میں رکھنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ شخص بےقصور ہے۔ نیب افسران کی طویل عرصے تک انکوائریز کی سزا وہ شخص جیل کاٹ کر بھگتتا ہے، جو بعد ازاں بےگناہ ثابت ہو جاتا ہے۔ نیب کی طرف سے گرفتاری کے اختیارات اور بےگناہ ہونے کا ثبوت ملزم کی طرف سے مہیا کرنے کی شقوں کو فوراً تبدیل ہونا چاہئے۔
حکومت نے گزشتہ ماہ نیب آرڈیننس میں ترامیم کے لیے آرڈیننس جاری کیا، جس کا مقصد بیورو کریٹس، تاجروں اور حامی سیاستدانوں کو ریلیف دینا تھا۔ اس طرح کی ترامیم سے اس قانون کی خامیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ اُمید کی جاتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پاکستان کی سیاسی تاریخ اور معروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے نیب آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرے گی، جن کے بعد یہ ایک شفاف قانون بن جائے۔ سول سرونٹس نے جن 13ترامیم کی تجویز دی ہے، وہ بہت حد تک معقول ہیں، جن کے مطابق جسمانی ریمانڈ کی مدت 90دن سے کم کرکے 15دن ہونی چاہئے۔ ملزمان کو ضمانت کا حق ملنا چاہئے۔
نیب کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ایک نگران ادارہ ہونا چاہئے۔ حتمی ریفرنس کے بعد ٹرائل ہونا چاہئے اور یہ ٹرائل گرفتاری کے زیادہ سے زیادہ 75دنوں تک مکمل ہونا چاہئے۔ اثاثوں کی ضبطی عدالت کے حکم سے مشروط ہونی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔
قانونی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کی وسیع تر مشاورت سے مزید ترامیم بھی کی جا سکتی ہیں۔ خود تحریک انصاف کے حکمران بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نیب کی کارروائیوں سے معیشت پر منفی اثرات پڑے۔ سول سرونٹس نے خوف سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی انتقام کا تاثر پیدا ہوا ہے۔ حکومت اس اچھے موقع کو ضائع نہ کرے اور اسے اَنا کا مسئلہ نہ بنائے۔ احتساب کا ایک بہتر قانون بہت ضروری ہے، جس میں پروڈا، ایبڈو اور پوڈو والی خامیاں اور بدنیتی نہ ہو۔