24 فروری ، 2020
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جب کہ سپریم کورٹ نے ججز کی جاسوسی سے متعلق پاکستان بار کونسل کی درخواست کو نمبر لگانے کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انور منصور خان اور فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں دلائل دیکر توہین عدالت کی، عدالت عظمیٰ ماضی میں توہین عدالت پر وزرائے اعظم کو گھر بھیجتی رہی ہے لہذا ان دونوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس کے دوران سورۃ الحجرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سورۃ الحجرات میں ہےکہ گمان نہ کرو یہ گناہ ہے، سورۃ الحجرات میں یہ بھی ہے کہ جاسوسی نہ کرو یہ بھی گناہ ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اخباروں میں خبر پڑھ کر دکھ ہوا، میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا بس میری آواز اونچی تھی۔
گزشتہ سماعت پر اونچا بولنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے علم ہوا کہ میں نے بلند آواز میں بات کی، وکلاء سمیت تمام افراد سے معذرت خواہ ہوں، جو ہوا اسے بھول جائیں اور آگے بڑھیں۔
انہوں نے عدالت میں سورۃ آل عمران کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ عدلیہ کو تنقید برداشت کرنی پڑتی ہے، ہم اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کی درخواست پر نمبر نہیں لگا جس پر عابد ساقی نے کہا کہ ہمارا اس معاملے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی میرے لیے مقدم ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق کوئی گمان ہوا تو آپ مجھے یہاں نہیں دیکھیں گے۔
بیرسٹر خالد جاوید خان نے کہا کہ میں بطور اٹارنی جنرل عدلیہ کی آزادی کے لیے کام کروں گا، اگر ذرا بھی گمان ہوا کہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے تو مستعفی ہو جاؤں گا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پچھلی سماعت پر جو کچھ ہوا ہم اسے قبول نہیں کر سکتے تھے، اُس سماعت کے بعد کا نتیجہ آ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش کریں کہ دلائل کے دوران کسی فریق کی تضحیک نہ ہو، قرآن پاک بھی غصے پر قابو پانے کا حکم دیتا ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، مجھے دلائل کی اجازت دی جائے، اگر عدالت بہتر سمجھے تو حکومت کی نمائندگی بھی کر سکتا ہوں۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین عابد ساقی نے فروغ نسیم کو دلائل دینے کی مخالفت کر دی۔
جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ آپ بطور وزیر قانون دلائل نہیں دے سکتے، آپ کو پہلے استعفیٰ دینا ہو گا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میرے خلاف جو درخواست آئی ہے اس پر دلائل دے سکتا ہوں جس پر عدالت نے فروغ نسیم کے خلاف دائر درخواست پر انہیں ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت اور ججز کی جاسوسی سے متعلق پاکستان بار کونسل کی درخواست کو نمبر لگانے کا حکم دے دیا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر ریفرنس کی مزید سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی 30 مارچ کو سنیں گے۔