بلاگ
Time 23 اپریل ، 2020

ظفر بنام ظفر

فوٹو فائل—

بہادر شاہ ظفر اور ایس ایم ظفر کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ بہادر شاہ ظفر ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ تھے جن پر برطانوی حملہ آوروں نے ہندوستان کی خود مختاری کے خلاف سازش کے الزام میں دہلی کے لال قلعے میں ایک نام نہاد مقدمہ چلایا اور پھر اُنہیں رنگون جلا وطن کر دیا۔

بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں انتقال ہوا اور وہ وہیں دفن ہوئے۔ ایس ایم ظفر پاکستان کے ممتاز قانون دان اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں جو 1930میں رنگون میں پیدا ہوئے۔ رنگون کو اب یانگون کہا جاتا ہے جو میانمار (برما) کا سب سے بڑا شہر ہے۔

ایس ایم ظفر کے والد یہاں روزگار کے سلسلہ میں مقیم تھے لیکن وہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آبائی شہر شکر گڑھ لوٹ آئے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر بہادر شاہ ظفر اور ایس ایم ظفر کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تو میں ان دونوں کا بار بار ذکر کیوں کر رہا ہوں۔

دراصل ایس ایم ظفر صاحب نے مجھے ایک خط بھیجا ہے۔ یہ خط 16؍اپریل 2020کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم کے بارے میں ہے اور اس خط میں سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کا ذکر پڑھ کر مجھے بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آ گیا؎

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

مشکل یہ ہے کہ ایس ایم ظفر میرے لئے بہت قابلِ احترام ہیں اور میر ظفر اللہ جمالی صاحب بھی ناچیز کے لئے بہت محترم ہیں۔ 2002ء میں جیو نیوز پر جو پہلا ٹاک شو اس خاکسار نے کیا اُس کا موضوع تھا ’’اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟‘‘ اور اس پروگرام میں مخدوم امین فہیم اور مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ میر ظفر اللہ جمالی جلوہ افروز ہوئے۔ کچھ دن بعد جمالی صاحب وزیراعظم بن گئے اور وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھا کر اُنہوں نے پہلا انٹرویو مجھے دیا۔

وہ پاکستان کے پہلے بلوچ وزیراعظم تھے۔ پھر اُن کے ساتھ وہی ہوا جو بلوچوں کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے لیکن میری اُن سے نیاز مندی برقرار ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب کا خط ملنے کے بعد میں نے اُن سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے میری مشکل آسان کر دی۔ پہلے ایس ایم ظفر صاحب کے طویل خط سے کچھ اہم اقتباسات پڑھ لیجئے۔

’’محترم حامد میر ، السلام علیکم!

آپ کا کالم روزنامہ جنگ میں پڑھا جس میں آپ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے لئے میری معمولی سی کوشش اور مطالبہ کو ایک زور دار بیان کہہ کر پذیرائی دی ہے جس پر میں شکر گزار ہوں۔ اللہ کرے کہ اس زور دار بیان سے میر شکیل الرحمٰن اور دیگر صحافی جو بلا جواز حراست میں ہیں، کو رہائی میسر آ جائے۔

میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے متعلق اپنی کتاب میں جو داستان بیان کی ہے وہ اسی احترام سے لکھی ہے جو اکثر پاکستانیوں کے دل میں ڈاکٹر صاحب کے لئے ہے جس میں آپ بھی صفِ اول میں شامل ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ڈی بریفنگ کے دوران ہر میٹنگ میں شامل رہا ہوں۔ مجھے اچانک آخری ملاقات میں شمولیت سے روک دیا گیا کیونکہ میں نے ایک دن پہلے ڈاکٹر صاحب کو احتیاطاً فون پر کہا تھا کہ وہ کوئی ایسا بیان نہ دے دیں جو حقیقت کے خلاف ہو۔

تب مجھے پتا لگا کہ میری ڈاکٹر صاحب سے فون پر گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھی تو فطری طور پر مجھے شکایت بھی تھی۔ میں اصلی واقعات کو بروقت منظر عام پر لانا چاہتا تھا تاکہ ڈاکٹر صاحب کے بیان کی اصلیت کا عوام کو علم ہو سکے۔

میری حالیہ کتاب History Of Pakistan Reinterpretedسے پہلے جون 2012میں ایک کتاب ’’سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی اُن کی اپنی زبانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی اور اس کتاب میں یہ تمام واقعات تفصیل سے بیان کر دیے تھے اور یہ کتاب جنرل پرویز مشرف کو خود جا کر پیش بھی کر دی تھی لہٰذا میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ تھا۔

بعد میں یہی باتیں میں نے سینیٹ میں بھی کر دی تھیں۔ میں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اگر کچھ واقعات کو بوجوہ تسلیم کر لیا ہے تو پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے یہ بیان دیا ہے۔ اب میں کالم کے اس حصے کی طرف آنا چاہتا ہوں کہ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے 2010میں ایک انٹرویو میں آپ سے کہا تھا کہ جنرل مشرف ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتا تھا اور یہ کہ امریکی ہوائی جہاز انہیں لینے کے لئے آ چکا تھا۔

ریکارڈ درست کرنے کے لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ظفر اللہ جمالی کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں ہے یا اُن کو کوئی غلط اطلاع ملی ہو گی یا پھر وہ اپنے استعفے کی اصل وجہ بیان نہیں کرنا چاہتے ہوں گے۔ جنرل مشرف سے میری جتنی ملاقاتیں ہوئیں اُن میں کئی بار ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل رہے، مجھے کبھی یہ اشارہ نہ ملا کہ وہ ڈاکٹر قدیر کو کسی اور ملک کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔

ملک کا کوئی بھی سربراہ ایسی خود کشی نہیں کر سکتا تھا۔ افواجِ پاکستان کی سوچ یہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی بھی ملک یا ادارے کے حوالے کرنے اور اُن سے تفتیش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب محترمہ بےنظیر بھٹو نے واشنگٹن میں یہ کہا کہ اگر وہ حکومت میں آئیں تو ڈاکٹر قدیر کو آئی اے ای اے کے حوالے کر دیں گی تو سابق آرمی چیف اور فوجی جرنیلوں کا ردِعمل یہی تھا کہ یہ بیان امریکہ کو خوش کرنے کے لئے دیا گیا۔

میری سمجھ سے باہر ہےکہ ظفر اللہ جمالی صاحب نے ایسا بیان کیوں دیا۔ چنانچہ اگر کوئی جہاز آیا بھی تو وہ مایوس ہو کر چلا گیا ہوگا۔ میری مندرجہ بالا گزارشات تاریخ کا بوجھ اُتارنے کی سعی ہے‘‘۔

ایس ایم ظفر صاحب نے تاریخ کا بوجھ اُتار دیا۔ میں نے ظفر اللہ جمالی سے رابطہ کیا تو وہ کراچی میں تھے۔ اُنہیں بتایا کہ ایس ایم ظفر صاحب کا خط مجھے ہر حال میں شائع کرنا ہے لیکن آپ کا موقف بھی ضروری ہے۔ اُنہوں نے میری بات سنی اور کہا کہ ایس ایم ظفر لاکالج میں میرے اُستاد رہے ہیں۔

میں اُن کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن میں اس ملک کا وزیراعظم رہا ہوں، 2010میں تمہیں جو کہا تھا، اُس پر قائم ہوں۔ بزرگوں نے یہ تعلیم دی تھی کہ ایسی بات نہ کرو جو اگلے جہاں میں شرمندگی کا باعث بنے لہٰذا میں نے جو کہا اُس پر مجھے کبھی کہیں پر شرمندگی نہیں ہو گی۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے بطور وزیراعظم جیو نیوز کو پاکستان میں نشریات کی اجازت بغیر کسی ذاتی مفاد کے دی تھی، میرے نیک جذبات شکیل صاحب تک پہنچا دینا۔ اُن کی باتیں سُن کر بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آیا۔

روئے جو دل کو کھول کر ٹکڑے جگر ہونے لگا

اور اگر رونے کو روکا دردِ سر ہونے لگا

کچھ خبر قاصد نے دی ایسی کہ سنتے ہی جسے

دل سے میں، مجھ سے مرا دل بےخبر ہونے لگا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔