دہشت کی بھول بھلیوں میں دوڑنے والا عمر شیخ

عمر شیخ— رائٹرز فوٹو/فائل

سورج طلوع ہونے کا وقت، فون کال کہ “حضرت مولانا صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ایک فاتح کے طور پر واپسی ہوئی ہے۔ “ اورپھر جذباتی کالر نے مجھے ان سے ملاقات کی دعوت دی، ایسا موقع بھلا کوی بھی صحافی اپنے ہاتھ سے کیسے جانے دیتا۔ میں ملاقات کے لیے فورا اپنے گھر سے چل پڑا۔

یہ موصوف “حضرت مولانا مسعود اظہر” تھے جن کو بھارتی حکومت کو قندھار میں اپنے ہائی جیک طیارے کے مسافروں کی آزادی کیلیے جیل سے رہا کرنا پڑا تھا۔ اس ڈیل میں قیدیوں اور مسافروں کی رہائی کا تبادلہ ہوا۔

ان دنوں یہ خطے کی سب سے بڑی خبر تھی اور میں اگلے دو گھنٹوں تک انہی سے باتیں کرتا رہا۔ کراچی میں واقع بنوری ٹاؤن کے مدرسہ میں سوال جواب جار ی رہے اور میری گفتگو کا محور مسعود اظہر ہی رہے ۔ اس دوران وہاں پر موجود ا ن کے ساتھ رہا ہونے والے نوجوان کو میں نظر انداز کرتا رہا۔

مجھے کیا پتا تھا کہ نوجوان جو خاموشی سے اپنے ناخنوں پر نظریں گاڑھے بیٹھا ہے وہ خبروں کی دنیا میں مسعود اظہر سے کہیں زیادہ شہ سرخیوں میں رہے گا۔

اس ملاقات کے بعد کوئی لگ بھگ دو برس میں میرے اردگرد کی دنیا بدل گئی ۔ نائن الیون کا واقعہ، طالبان دور کا خاتمہ، ملا عمر کا موٹر سائیکل پر بر قعہ میں فرارہوناُ، اسامہ بن لادن اور زواہر ی کا مفرور قرار پانا اور مسعود اظہر کا دنیا میں مطلوب ترین افراد میں شمار ہونا۔ غرض یکسر دنیا کی ہیت بدل رہی تھی۔

دہشت گردی کیخلاف اندھیروں میں اٹی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا ۔

جب امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا کی خبر آئی تو میں ان دنوں بی بی سی لندن کے ساتھ منسلک تھا۔ کچھ ہی ہفتوں قبل میری ان سے غیر ملکی صحافیوں کےساتھ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی۔

میں لندن سے نائن الیون کے بعد واقعات کی کوریج کےلیے پاکستان آیا ہوا تھا۔

ملاقات میں ان کا مسکراتا ہوا چہرہ اور اب اغوا کاروں کے قبضہ میں جکڑے ہوئے ان کی ریلیز کردہ تصویر۔ ملاقات کی مسکراتے چہرے والی تصویر ذہن میں مستقل گردش کر رہی تھی۔

اغوا کار رابطہ کےلیے ای میل استعمال کر رہے تھے اور اپنی تحریک کا مقصد پاکستان کی خود مختاری کی بحالی گردان رہے تھے۔

اور پھر عمر شیخ کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت ہتھکڑیاں ڈلی ان کی پیشی۔

کچھ برس قبل تک کشمیر جہاد کے روح رواں مولانا مسعود اظہر کے سائڈ کِک یا “چھوٹے” کے طور پر پہچان والے عمر شیخ اور اب اسی شخص پر ڈینیل پرل کے قتل کی منصوبے بندی کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا سنگین الزام۔

مجھے یاد ہے جب مولانا مسعود اظہر نے بنوری ٹاون میں عمر شیخ کا تعارف کرایا تھا۔ “ یہ ان کی زبان میں بات کرتا ہے، یہ ان کی طرح (غیر ملکیوں) کی طرح لگتا ہے لیکن اس کی روح جہاد سے جڑی ہے۔”

اس وقت اس طرح کے الفاظ کا استعمال جہادیوں کا بھاشن سا لگ رہا تھا لیکن دہشت گرد نیٹ ورکس نے عمر شیخ کا غالباً انتخاب اسی بنیاد پر کیا۔

وہ بھارت میں غیر ملکیوں کے اغوا کرنے پر گرفتار ہوا اور اب اس نے ایک اور غیر ملکی یعنی ڈینیل پرل کو اپنے نرغے میں پھنسایا۔

جیسے، جیسے عمر شیخ کے بارے میں معلومات آرہی تھیں، اس کی شخصیت کو جاننے کی میری جستجو بڑھتی جا رہی تھی۔

ایک دولتمند کاروباری گھرانے میں پیدائش، اسکول کی تعلیم ، اعلی تعلیمی ادراوں ایچیسن اور لندن کے پرائیویٹ فوریسٹ جیسے اسکول سے حاصل کی اور پھر لندن اسکول آف اکنامکس جیسا معتبر ادارہ۔

میں نے عمر شیخ کے کالج کے دوست سے لندن میں ملاقات کی، اس کے بقول وہ ایک بلا کا ذہین شخص تھا مگر اکثر باتو ں میں بھڑک اٹھتا تھا۔

شیخ نوے کی دہائی کے وسط میں مشرقی یورپ کے شورش زدہ بوسنیا چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد انڈیا میں گرفتاری کی صورت میں منظر عام پر آیا۔

اس کے کالج کے دوست نے مجھے بتایا کہ”ان دنوں وہ بوسنیا اور کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں اکثر ذکر کرتا تھا کہ مسلمانوں کو مغربی طاقتوں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنی مدد خود کرنی چاہیے۔”

“لیکن اس کی شخصیت میں کچھ پراسراریت تو تھی۔ ایک لمحہ روڈ پر واقعہ کیفے میں کالج کے دوستوں کی ساتھ پنجہ آزمائی کر رہا ہوتا اور پھر اچانک کئی کئی دنوں کے لیے غائب ہوجاتا۔”

لندن سے بوسنیا، کشمیر سے قندھار عمر شیخ دہشت گرد نیٹ ورکس کی تاریک راہداریوں میں دوڑتا رہا اور بالآخر کراچی میں قانون کے حصار میں جکڑا گیا۔

لگ بھگ سال بعد یعنی 2003 میں پاکستان اور افغانستان کی کوریج کیلیے واپس آیا۔ میں نے ٹائم میگزین کے صحافی ٹم مک گرک کیساتھ “ڈینیل پرل کا قاتل کون ؟” کے عنوان سے ایک خصوصی رپورٹ لکھی۔

خالد شیخ محمد/ فائل فوٹو

کر اچی میں واقعہ کی صحافتی چھان بین میں کئی دن گزارے۔ ہماری تحقیقات سے غالبا پہلی مرتبہ انکشاف ہوا کے ڈینیل پرل کو خنجر سے قتل کرنے والا القاعدہ کا اہم رہنما خالد شیخ محمد تھا جو کے ایس ایم کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

کے ایس ایم نے بعد میں امریکی تفتیش کاروں کے سامنے قبول کیا کہ اسی نے امریکی صحافی کو قتل کیا تھا۔ ان دنوں وہ گوانتانامو میں قید کاٹ رہا ہے۔

ڈینیل پرل قتل کیس میں ایک خطرناک گٹھ جوڑ کے شواہد بھی سامنے آئے یعنی القاعدہ، افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے والے جہادی گروہ اور لشکر جھنگوی کے عناصر اس بہیمانہ قتل میں ملوث نظر آئے۔

اور عمر شیخ نے ایک پل کا کردار ادا کیا۔

کیس کی تفتیش میں حصہ لینے والے ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے، “عمر نے ڈینیل پرل سے ملاقات فرضی نام سے کی۔ وہ القاعدہ کے ساتھ رابطہ میں تھا، چالاکی کےساتھ جال میں پھنسایا، ملاقات کی جگہ کا تعین کیا اور اسے جہادی جنگجوؤں کے ذریعے کے ایس ایم کے حوالے کیا۔”

مقتول امریکی صحافی ڈینیل پرل

اغوا کے واقعہ کے روز، ڈینیل پرل نے جمیل یوسف کے ساتھ ملاقات کی۔ جمیل یوسف اس وقت کراچی پولیس کیساتھ مل کر شہر میں جرائم پیشہ افراداور مافیا کیخلاف تفتیش کرنے والی کمیٹی کے سربراہ تھے۔

جمیل یوسف اس ملاقات کو شاید کبھی نہ بھول پائیں۔ “ہم نائن الیون کے بعد جرائم اور دہشتگردی کی بدلتی جہتوُ ں کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ اس کا فون بجا۔”

“میں آپ سے ملاقات کر سکتا ہوں، شاید پندرہ منٹ میں،” جمیل یوسف نے ڈینیل پرل کو کالر سے بات کرتے ہوئے سنا۔

جمیل یوسف نے امریکی اور پاکستانی انٹلیجنس اہلکاروں کی تفتیش میں مدد کی جنھوں نے اس معاملہ کی گتھی سلجھائی اور عمر شیخ کی گرفتاری عمل میں آئی۔

جب عمر شیخ ایک مرتبہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو اس کی زندگی میں تبدیلیاں لازمی تھیں ۔

اس وقت کراچی سینٹرل جیل میں تعینات سینئر اہلکار امان اللہ نے مجھے عمر شیخ اور جیل کا حال بتایا تھا ۔

“ابتدائی دنوں میں امریکا مخالف جذبات موجود تھےاور عمر شیخ جیل میں موجود جہادی جنگجوؤں کیلیے ایک برانڈ تھا اور خود بھی وہ اپنے آپ کو ایک ہیرو کی طرح پیش کرتا تھا۔”

“ اسے یقین تھا کہ اس کی قید چند برس کی ہو گی اور وہ ایک مرتبہ پھر آزادی سے گھومے پھرے گا۔”

ا مان اللہ کئی برس بعد کراچی کی تشدد کی لہر میں مار ا گیا۔

عمر شیخ کو موت کی سزا ہوئی تھی۔گزشتہ اٹھارہ برس سے کال کوٹھری میں سزا کاٹ رہا ہے۔

کیا وہ اب ایک مختلف انسان ہے؟ ایک ٹوٹا ہوا شخص؟ اور کیا اس کی کہانی میں ایک ایسے کردار کی گنجائش ہے جو پہلے ولن ہو اور پھر اسے اپنی غلطیوں کا احساس جاگے اور ایک بہتر انسان میں تبدیل ہونے کی کوشش کرے؟

ایک سینئر اہلکار جس نے حیدرآباد جیل میں حال ہی میں عمر شیخ سے ملاقات کی اور مجھےاپنی ملاقات کے تاثرات بتائے۔

“وہ ایک مایوس شخص لگتا ہے۔ اپنی عمر سے کہیں زیادہ لگ بھگ دس برس بڑا لگتا ہے۔ اس کی داڑھی اب مکمل طور پر سفید ہو رہی ہے۔اس کی باتوں کا جارحانہ انداز اب یکسر بدل سا گیا ہے۔ “

لیکن اسی تفتیشی اہلکار کو عمر شیخ کا تحریر شدہ “غزوہ ہند” کے عنوان سے گائیڈ نما کتابچہ بھی ملا کہ بھارت میں جہاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔

عمر شیخ کے کالج کے پرانے دوستوں کی طرح، تفتیش کاروں کو بھی اس کے کردار میں پراسراریت محسوس ہوتی ہے۔

کچھ اہلکار اسے “نا تجربہ کار دہشت گرد”گردانتے ہیں جو اغوا کی اپنی دونوں کاروائیوں میں گرفتار ہوگیا لیکن دوسری طرف بعض اہلکار عمر شیخ کو ایک چالاک اور انتہائی ذہین شخص مانتے ہیں جس نے ایف بی آئی کی تفتیش کے دوران جھوٹ بولنے پر پکڑے جانے والے مشینی ٹیسٹ کو چکمہ دے دیاتھا۔

سینئر پولیس تفتیش کار اور فکشن ناولز کے مصنف عمر شاہد کے مطابق “عمر شیخ ایک انتہائی دلچسپ کردار ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی Greek tragedy کی طرح ہے۔”

عمر شاہد کے ایک ناول “دی اسپنرز ٹیل” The Spinner’s Take کاُ مرکزی کردار عمر شیخ سے متاثر لگتا ہے اور ناول میں امریکی صحافی کے اغوا اور قتل سے متعلق کی واقعات حقیقی واقعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔

لیکن عمر شیخ کی کی کہانی میں حالیہ دنوں میں ایک ڈرامائی موڑ آیا جب کراچی میں گزشتہ ماہ ہائیکورٹ نے ان کی موت کی سزا کو معطل اوران کے تین ساتھیوں کی رہائی کا حکم صادر کر دیا۔

امریکا کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ سینئر امریکی سفارتکار برائے امور جنوبی ایشیا، ایلس ویلز نے اسے “دہشت گردی سے متاثر مظلوموں کی توہین“ قرار دیا۔

ڈینیل پرل کے والدین نے پاکستان کی اعلی عدلیہ یعنی سپریم کورٹ سے انصاف اور ہائیکورٹ کے فیصلہ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک انتہائی جذباتی پیغام بھی ریلیز کیا۔ “ہم صرف اپنے بیٹے کیلیے انصاف کے طلبگار نہیں بلکہ پاکستان میں موجود اپنے تمام دوستوں کیلئے تاکہ وہ دہشت گردی اور تشدد سے پاک معاشرے میں زندہ رہے سکیں۔۔۔”

پاکستانی اداروں نے عمر شیخ اور ان کے تین ساتھیوں کو مزید تین ماہ کیلئے جیل میں رکھنے کے لیے پابند کردیا ہےاور لگتا ہے اعلی عدلیہ ڈینیل پرل کے والدین کی اپیل کی جلد ہی سنوائی کرے گی۔

پاکستانی اسٹبلشمنٹ کیلیے عمر شیخ ایک بڑا بوجھ ہے، ایک سوچ موجود ہے کہ اتنےسنگین جرم میں ملوث شخص کی رہائی ملک کی رسوائی کا باعث بنے گی۔

جہادی جنگجوؤں کےلیے اب اس کی اہمیت ایک چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ نہیں۔

کبھی دہشت گردی کی تاریک راہداریوں میں دوڑنے والا عمر شیخ اب اسی بھول بھلیوں میں بظاہر زندگی بھر کیلیے پھنس گیا ہے۔

(انگریزی میں شائع کردہ اپنی تحریر کا ترجمہ خود لکھاری اویس توحید نے کیا ہے۔)

اویس توحید پاکستان کے معروف صحافی/لکھاری ہیں۔ ای میل پر رابطہ کیلیے [email protected] اور ٹویٹر @OwaisTohid


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔