پاکستان
01 ستمبر ، 2012

حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ: اوباما انتظامیہ تقسیم کا شکار

کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کیلئے اوباما انتظامیہ شدید تقسیم کا شکار ہو گئی۔ کانگریس کی طرف سے گروپ کو دہشت گرد قرار دینے کی اوباما انتظامیہ کودی گئی حتمی تاریخ کا خاتمہ چند لمحوں میں ہوجائے گا۔وائیٹ ہاوٴس اور وزارت خارجہ حقانی گروپ کو دہشت گرد قرار دینے کے حق میں نہیں جب کہ امریکی فوج اسے دہشت گرد قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔پاک فوج حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا امریکا کا اندرونی فیصلہ قرار دیتی ہے اور پاک فوج کو اس معاملے میں کوئی ترجیح نہیں۔ اخبار کے مطابق حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار کے فیصلے پر اوباما انتظامیہ اس لئے پریشانی کا شکار ہے کہ اگر انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا تو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں پیچیدہ اور کمزور ہو جائیں گی۔کانگریس نے افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کوامریکا کاسب بڑا دشمن خیال کرتے ہوئے اس ماہ کے ابتدا میں ہلیری کلنٹن کو اسے دہشت گرد دینے کیلئے 30دن کی مہلت دی تھی، حتمی تاریخ کاخاتمہ ہونے والا ہے۔ اگر کلنٹن حقانی نیٹ ورک کو دہشت گردتنطیم کے تعین سے انکا ر کرتی ہے تو اسے 9ستمبر کو کانگریسں میں اس کی رپورٹ میں وضاحت کرنی ہوگی۔اگر اسے دہشت گرد تنظیم تسلیم کرلیا گیا تو کانگریس اوباما انتطامیہ پر اس کے خلاف کارروائی کے لئے دباوٴ ڈالے گی جس کی فوج حمایت کرے گی لیکن وائیٹ ہاوٴس اور وزارت خارجہ مزاحمت کرے گی۔ اعلیٰ امریکی حکام افغانستان سے 2014 کے اختتام تک پرامن انخلاء میں حقانی نیٹ ورک کو رکاوٹ سمجھتی ہے اور پاکستان پر اس کی قیادت کی حمایت کا مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے میں کئی رکاوٹیں اوروجوہات ہیں۔ان عوامل میں پاکستان کے ساتھ ایک کمزور مفاہمت ہے جس سے سپلائی لائن کی بحالی ممکن ہوئی۔امریکی حکام کو یہ توقع ہے کہ اس سال کے آخر پر طالبان کے ساتھ دوبارہ امن مذاکرات کیے جائیں گے جو مارچ میں معطل ہوگئے ان مذاکرات میں امریکا قیدیوں کے تبادلے کی پیش کش کرے گا جس کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک امریکی کو رہا کیے جانے کا امکان بھی ہے ۔گشتہ ہفتے وائیٹ ہاوٴس میں ایک اجلاس میں اوباما کے اعلیٰ قومی سلامتی کے مشیروں کی طرف سے کلنٹن کو کہا گیا کہ حقانی نیٹ ورک کے مسئلے پر ابھی فیصلہ نہ کیا جائے،انہوں نے بھی اس معاملے پر کوئی کارروائی سے گریز کیا۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر حقانی کو دہشت گرد قرار دینے میں دباوٴ ڈال رہے ہیں۔ جان ایلن نے اس سلسلے میں اہم اقدامات کرنے پر زور دیا، دیگر عسکری تھنک ٹینک بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت اقدامات کے حق میں ہیں۔ جب کہ وائیٹ ہاوٴس اور وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات خطرنا ک اور مثب نتائج کم نکلیں گے۔حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے مسئلے پر پاک فوج اس بات پر قائم ہے کہ انہیں اس میں کوئی ترجیح نہیں اس کا فیصلہ کرنا امریکا کااندرونی معاملہ ہے اور وہ حقانی نیٹ ورک سے اپنے تعلق کے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔پاک فوج کے حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے نقطہ نظر سے، مفاہمت بہت وسیع ہے،حقانی ایک فرد کی شناخت نہیں۔ وہ جو بھی ہیں اس بات چیت کا حصہ ہیں۔جون میں امریکا نے قطری حکومت کے ذریعے طالبان کو پیش کش کی تھی کہ برگدال کی رہائی کے بدلے امریکا گوانتانامو میں عسکریت پسندوں کے پہلے کی بجائے دوسرے گروپ کو رہا کرنے پر تیا رہے تاہم طالبان کی طرف سے اس سال کے آخر تک کوئی اس سلسلے میں کسی ردعمل کے آنے کا امکان ہے۔

مزید خبریں :