Time 10 ستمبر ، 2020
پاکستان

شیخ اعمال نامہ

کلیم امام 3ماہ آئی جی رہے، سنا گیا، تبدیل ہونے کی وجہ بنا، خاور مانیکا، ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل جھگڑا، محمد طا ہر کو خیبر پختونخوا سے لاکر آئی جی لگایا گیا، ایک ماہ بعد چھٹی، سنا گیا، وجہ بنا، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس افسروں کو عہدوں سے ہٹانے کا حکومتی حکم ماننے سے انکار، امجد سلیمی 6 ماہ آئی جی رہے، سنا گیا، ہٹنے کی وجہ، حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کیلئے نیب ٹیم سے تعاون نہ کرنا۔

عارف نواز 6 ماہ آئی جی رہے، تبدیلی کی وجہ، اوپر نیچے عوام سے پولیس زیادتیاں، شعیب دستگیر، یہ 9 ماہ بعد تبدیل ہوئے، وجہ، بظاہر سی پی او لاہور  محمد عمر شیخ سے تنازع، اس پر بات کرنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں گو کہ آئی جی شعیب دستگیر ایماندار، پروفیشنل افسر، گو کہ عمران خان نے انہیں خود لگایا، وزیراعظم نے بتایا ’’3ہفتے کی سوچ بچار کے بعد ہم شعیب دستگیر کو لائے، یہ باعزت افسر‘‘، گو کہ گزرے 9 ماہ میں عمران خان کئی بار شعیب دستگیر کی تعریف کر چکے ’’شعیب دستگیر بہترین آئی جی، وہ کمال کام کر رہے، میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں‘‘ لیکن ان کا جانا ٹھہر گیا تھا۔

کیوں، کیونکہ گزشتہ چند ہفتوں سے وزیراعظم کو رپورٹیں مل رہی تھیں کہ آئی جی کا جھکاؤ (ن) لیگ کی طرف (ملاحظہ ہو ان کے تبادلے پر (ن) لیگ کا شور شرابہ، یہاں تک کہہ دیا، اس تبادلے کے خلاف ہم عدالت جائیں گے) پولیس لیگیوں سے ڈری ہوئی، انہیں خوف، یقین لیگی حکومت آنے والی، پھر مریم نواز نیب پیشی پر پولیس کا کنفیوژ، کمزور کردار، تبھی فیصلہ ہوگیا۔

 آئی جی سمیت پوری پولیس ٹیم بدلنے کا، یہی وجہ فوری طور پر سی سی پی او ذوالفقار حمید کو بدل دیا گیا، انہیں تبدیل کرتے وقت بھی آئی جی سے نہیں پوچھا گیا۔

شعیب دستگیر، عمر شیخ تنازع کیا، قصہ یہ، گریڈ 20سے گریڈ 21 پروموشن بورڈ، عمر شیخ کا نام آیا، شعیب دستگیر نے نہ صرف ان کے خلاف نازیبا جملے کہے بلکہ انہیں کیٹگری ’سی‘ میں رکھا، مزے کی بات بورڈ میں موجود چاروں آئی جی وہ، جن کے ساتھ عمر شیخ نے ایک دن بھی نوکری نہیں کی، عمر شیخ پروموٹ نہ ہوئے لیکن پھر وہ سی سی پی او لاہور لگ گئے۔

کہا جارہا اس تقرری میں شہزاد اکبر کا کردار، لیکن یہ نہیں کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ عمر شیخ کو جانتے نہیں تھے، وزیراعظم سے انکی ملاقات ہو چکی، اکتوبر 2018، آئی جی اسلام کیلئے انٹرویو، عمر شیخ ایک امیدوار، اس روز عمران خان نے عمر شیخ سے 18 منٹ توصرف بات کی کہ پنجاب پولیس کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

اسی ملاقات میں عمر شیخ نے وزیراعظم کو بتایا، پنجاب میں ناصر درانی فارمولا نہیں شیخ عمر فارمولا چلے گا، وزیراعظم نے پوچھا، یہ فارمولا کیا، عمر شیخ نے کہا، یہ فارمولا ہے، چور نہیں چور کی ماں کو پکڑو اور پولیسنگ آف پولیس مطلب پولیس کی سخت اکاؤنٹبیلٹی، حتی کہ پولیس کورٹ مارشل، عثمان بزدار انہیں اس لئے جانتے ہیں کہ یہ ڈی جی خان کے آر پی او رہ چکے، وہاں انکی کارکردگی کی سب تعریفیں کریں، یہ بھی سنتے جائیں، شہباز دور میں 10سال عمر شیخ کو پنجاب سے آؤٹ رکھا گیا۔

خیر بات شعیب دستگیر، عمر شیخ تنازعہ تب عروج پر پہنچا جب عمر شیخ نے سی سی پی او لاہور لگنے کے بعد پولیس افسروں کی میٹنگ میں آئی جی کے حوالے سے کہا ’’مجھے آئی جی نے پروموٹ نہیں ہونے دیا، سی گریڈ میں رکھا، میں انکی مرضی کیخلاف یہاں لگا، میں انکو جوابدہ نہیں۔

 وزیراعلیٰ، وزیراعظم کو جوابدہ، آپ کو آئی جی بھی کوئی کام کہے، تب تک نہیں کرنا، جب تک میں نہ کہوں، یہ باتیں آئی جی تک پہنچیں، انہوں نے کہا، یہ مس کنڈیکٹ، عمرشیخ کیخلاف انکوائری ہونی چاہئے، وہ گزرے جمعہ کو وزیراعظم سے ملے، وہ پیر کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملے، وفاقی، صوبائی حکومت نے صلح صفائی کی کوشش کی، عمر شیخ بھی 3دن شعیب دستگیر کو ملنے کیلئے پیغام بھجواتے رہے، انہیں وٹس ایپ میسجز بھی کئے کہ آپ میرے بڑے، اپنے الفاظ پر معذرت، شعیب دستگیر نے نہ صرف ملنے سے انکار کر د یا بلکہ دفتر آنا چھوڑ دیا اور بالآخر ان کا تبادلہ ہوگیا۔

اب اس تبادلے اور نئے آئی جی انعام غنی کی تعیناتی کے بعد پنجاب پولیس افسران غم وغصے میں، پولیس افسر یونین کا اجلاس بھی ہوچکا، انعام غنی سے سینئر پولیس افسران نے اپنے تبادلوں کا کہہ دیا، بیسیوں افسران کا سابق آئی جی شعیب دستگیر سے اظہار یکجہتی، یہ بھی سنتے جائیے۔

انعام غنی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیچ میٹ ان پرکئی سنگین الزامات، ان کی مدد اعظم خان اور ان کے اپنے بھائی احسان غنی (سابق ڈی جی آئی بی) نہ کرتے تو نوکری تک کا خطرہ تھا، پھر ان کا پنجاب میں کوئی تجربہ بھی نہیں، بس ابھی ساؤتھ پنجاب (نئے صوبے) کے ایڈیشنل آئی جی پنجاب میں پہلی پوسٹنگ، یہ بہت سارے افسران سے جونیئر، لہٰذا سخت ردعمل آیا پنجاب پولیس کا۔

ویسے عمر شیخ ایشو پر پنجاب پولیس افسران کا ردِعمل دیکھ کر حیرانی ہو رہی، ان سب نے لیگی دور میں کبھی اف تک نہ کی، حالانکہ شہباز  شریف نے کسی تبادلے، تقرری میں کبھی آئی جی سے نہ پوچھا، بلکہ تقرری سے پہلے یہ پولیس افسران باجماعت حمزہ شہباز کے گھٹنے چھوا کرتے، خوشی خوشی انہیں بھی انٹرویو دینے جایا کرتے، باقی 8 ضلعوں، نیکٹا، سی پیک اور واشنگٹن میں آئی بی چیف رہ چکے، عمر شیخ اے گریڈ یا سی گریڈ افسر، انہیں 3 ماہ دیدیں، پتا چل جائے گا۔

اب آجائیے تبدیلی سرکار تبادلوں پر، لگ رہا یہ تبدیلی نہیں تبادلہ سرکار، دوسالوں میں 5چیف سیکرٹری، 5آئی جی، 4چیئرمین ایف بی آر، 4چیئرمین بورڈ آف انوسٹمنٹ، 4سیکرٹری تجارت، 9ہائر ایجوکیشن سیکرٹری، 3سیکرٹری خزانہ، 3ایس ای سی پی چیئرمین، 3وزیر اطلاعات ونشریات کے وزیر، 3فوڈ سیکورٹی وزیر، 3وزیر انڈسٹری اور سینکڑوں دوسرے تبادلے۔

سوچوں یہ کیوں، بڑی وجہ لگے، ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونا، ادارہ جاتی اصلاحات کا حال سنتے جائیے، دوسال عشرت حسین، ارباب شہزاد ٹرک کی بتی کے بعد پچھلی وفاقی کابینہ میٹنگ میں ادارہ جاتی اصلاحات کی ڈیوٹی اب شفقت محمود کے سپرد، دوسال میں اصلاحات کا یہ سفر، سبحان اللہ۔

مزید خبریں :