Time 07 اکتوبر ، 2020
بلاگ

حکومت کی حکمت عملی

فوٹو: فائل

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی گرفتاری اور اُس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو آل پارٹیز کانفرنس کے آفٹر شاکس سے تعبیر کیا جارہا ہے اور آفٹر شاکس کا یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں بلکہ پارٹی اجلاسوں میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے جارحانہ بیانات نے سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے جبکہ وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمانوں کے غیرذمہ دارانہ بیانات کشیدہ ماحول میں جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں سیاسی ماہرین، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی کا سہرا نیب کے سر باندھ رہے ہیں جس کی یکطرفہ انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہونے کا موقع ملا کیونکہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں، نیب کی جانب سے ہونے والی کارروائیوں کو اپنے خلاف انتقامی کارروائیاں قرار دے رہی ہیں جس سے نیب شدید تنقید کی زد میں ہے۔ 

سپریم کورٹ بھی نیب کو سیاسی انجینئرنگ میں ملوث قرار دے چکی ہے جس کا مقصد حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا ہے، اِس طرح چیئرمین نیب اور وفاقی وزراء نے صورتحال کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اپوزیشن اور ادارے کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ 

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’’کہیں سے ایک دھیلا بھی میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر نہیں ہوا اور اگر میرے اکاؤنٹ میں ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو مرنے کے بعد مجھے قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکادیا جائے‘‘۔ 

گرفتاری کے بعد بھی شہباز شریف کا اپنے بھائی کا ساتھ دینے سے حکومتی وزراء کے اِن دعوؤں کی نفی ہوتی ہے کہ دونوں بھائیوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ اُن کی گرفتاری سے یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ اب بھی بڑی ثابت قدمی سے کھڑے ہیں اور اُن کے خلاف استعمال ہونے کو تیار نہیں، خود مریم نواز کا یہ کہنا ہے کہ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور اب پارٹی کے ہر لیڈر کا بیانیہ نواز شریف کا بیانیہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ میاں شہباز شریف پارٹی میں مفاہمت کی علامت سمجھے جاتے تھے جن کی گرفتاری سے مفاہمت کی سیاست، مزاحمتی سیاست میں تبدیل ہوگئی ہے اور آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) میں کنفیڈریشن کی سیاست جنم لے گی جس سے اداروں میں تصادم بڑھنے کا احتمال ہے۔ 

حالیہ کشیدہ صورتحال میں مسلم لیگ(ن) کا ردعمل فطری ہے کہ اُسے دیوار سے لگادیا گیا ہے اور اب اُس کے پاس ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ کے سوا کوئی اور آپشن نہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں، شہباز شریف کی گرفتاری کو اے پی سی کی کامیابی اور گلگت بلتستان کے متوقع الیکشن سے جوڑ رہی ہیں۔ 

موجودہ صورتحال میں حکومت کی یہ حکمت عملی ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو پابندِ سلاسل کیا جائے تاکہ اُن کی آواز کو دبایا جاسکے، ہمارے سامنے ماضی کی مثالیں موجود ہیں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹروں نے مخالفین کو جیلوں میں بھرکر کوڑے لگوائے لیکن وہ پھر بھی اپوزیشن کی آواز نہ دبا سکے۔ 

افسوس کی بات یہ ہے کہ نیب، اپوزیشن کے خلاف اقدامات میں اتنا آگے نکل چکی ہے کہ اب گھر کی خواتین بھی نیب کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہی ہیں جس کی حالیہ مثال گزشتہ دنوں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور بیٹی رابعہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری ہیں، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت کسی وقت بھی مریم نواز کو گرفتار کرسکتی ہے تاکہ وہ اے پی سی کے جلسے جلوسوں سے خطاب نہ کرسکیں۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور مسلم لیگی قیادت پر غداری کے مقدمات قائم کرنا حکومت کی درست حکمت عملی نہیں کیونکہ وہ شخص جس نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو بھارت کے مدمقابل لاکھڑا کیا، اُسے ملک دشمن اور غدار قرار دینے سے صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے جس کی روایت ختم ہونی چاہیے۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ میاں نواز شریف نے اپنے دور میں کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آپریشن کی منظوری دی تھی اور الطاف حسین کی سیاست کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا تھا مگر افسوس کہ آج اُنہیں، اُسی شخص کے برابر لاکھڑا کیا گیا ہے جو مناسب نہیں۔ 

عمران خان ماضی میں اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی واحد آپشن ہیں، شاید اُنہیں اِس بات کا اندازہ تھا کہ نواز شریف اے پی سی خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے، اِسی لئے پیمرا نے نواز شریف کے اے پی سی اور سی ای سی سے خطاب میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جس کا کریڈٹ خود عمران خان بھی لیتے ہیں لیکن کیا اُنہیں اُس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ نواز شریف اشتہاری اور مفرور ہیں اور اُن کی تقریر ٹی وی چینلز پر نہیں دکھائی جاسکتی؟

حکومت کی موجودہ حکمت عملی سے اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ میں مزید دوریاں پیدا ہوئی ہیں اور اِس طرح عمران خان نے حالیہ سیاسی کشیدگی اور اپوزیشن پر حکومت کے حملوں کا رخ بڑی خوبصورتی سے اُس جانب موڑ دیا ہے جہاں وہ خود تو سائیڈ لائن ہوگئے مگر ادارے کھل کر سامنے آرہے ہیں جو اُن کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہیں جس کا فائدہ یقیناً عمران خان کو ہوا جو شہباز شریف کی گرفتاری اور نواز شریف کی جارحانہ تقریروں سے اسٹیبلشمنٹ کے مزید قریب آگئے ہیں اور اب یقیناً اُن کی Only Choiceبن چکے ہیں۔ 

عمران خان، شیخ رشید اور دوسرے وزراء کی یہ کوشش ہے کہ مزید گرفتاریوں اور مقدمات سے اپوزیشن میں اشتعال پیدا کیا جائے تاکہ اپوزیشن اور اداروں میں مزید دوریاں بڑھیں جس کا فائدہ وقتی طور پر تو عمران خان کو ہوگا مگر اِس کا طویل المدتی نقصان پاکستان کو اُٹھانا پڑے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔