بلاگ
Time 17 دسمبر ، 2020

جب ضمنی الیکشن تماشا بن گیا

فائل:فوٹو

16دسمبر آیا اور چلا گیا۔ اخبارات میں 16؍دسمبر 1971کو پاکستان کے دو لخت ہونے کے متعلق کچھ مضامین شائع ہوئے اور ٹی وی چینلز پر آرمی پبلک اسکول پشاور کے اُن 141بچوں اور اُساتذہ کو یاد کیا گیا جنہیں 16؍دسمبر 2014 کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا۔ اِن دونوں سانحوں میں 43برس کا فاصلہ ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی دن رونما ہوئے۔ دونوں سانحوں میں ایک اور پہلو بھی مشترک ہے۔

پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات پر جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں سانحے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر دی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے یہ رپورٹ دبا دی اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی اور آخر کار وہ خود ایک فوجی کارروائی کا نشانہ بن گئے۔ یہ رپورٹ پرویز مشرف کے دور حکومت میں منظر عام پر لائی گئی جب سقوطِ ڈھاکہ کے اکثر کردار وفات پا چکے تھے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کی وجوہات اور ذمہ داران کے تعین کے لئے بھی ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا لیکن اِس کمیشن کی رپورٹ کو بھی خفیہ رکھا گیا۔

آخر کار ستمبر 2020میں سپریم کورٹ کے حکم پر یہ رپورٹ منظر عام پر لائی گئی جس میں پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ابراہیم خان نے لکھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ایک بڑی وجہ سیکورٹی اداروں کی غفلت بھی تھی لیکن کسی ذمہ دار کے خلاف فی الحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بڑے بڑے سانحات سے سبق نہیں سیکھتے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ذمہ داروں کو سزا نہیں ملتی۔

حال ہی میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اے آر صدیقی کی کتاب ’’جنرل آغا محمد یحییٰ خان۔۔۔ دی رائز اینڈ فال آف اے سولجر‘‘ شائع ہوئی ہے۔

انگریزی میں لکھی گئی یہ کتاب بظاہر جنرل یحییٰ خان کی بائیو گرافی ہے لیکن اِس کتاب میں وہ ہوش اُڑا دینے والے حقائق موجود ہیں جن کو پڑھ کر پاکستان کے دو لخت ہونے کی وجوہات کا پتا چلتا ہے اور دل ایک انجانے خوف کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) اے آر صدیقی 1968سے 1973تک آئی ایس پی آر کے سربراہ رہے۔ اُنہوں نے جنرل یحییٰ خان کے ساتھ اُس وقت کام شروع کیا جب وہ کیپٹن تھے اور پھر اُنہوں نے کرنل بن کر جنرل یحییٰ خان کی وہ پہلی تقریر لکھی جو اُنہوں نے جنرل ایوب خان کو ہٹانے کے بعد بطور چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کی تھی۔

بریگیڈیئر (ر) اے آر صدیقی کی کتاب 2020 میں شائع ہونے والی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے کیونکہ اِس کتاب میں سنی سنائی نہیں، آنکھوں دیکھی معلومات شامل ہیں اور کہیں پر بھی مصنف نے کسی کی غفلت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب تک جنرل یحییٰ خان نے سیاست میں مداخلت نہیں کی، اُن کی ساکھ ایک پروفیشنل سولجر کی تھی جو دوسری جنگ عظیم میں اٹلی کی ایک جیل توڑ کر فرار ہوئے۔

1960میں وہ چیف آف جنرل اسٹاف تھے تو اُنہیں صدر ایوب خان نے راولپنڈی کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایک نیا دارالحکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی اور کیپٹن اے آر صدیقی پی آر او کے طور پر یحییٰ خان کے ساتھ منسلک کر دیے گئے۔

یہ نیا دارالحکومت جو بعد میں اسلام آباد کہلایا، اُس کے ماسٹر پلان اور تعمیر میں یحییٰ خان نے دن رات ایک کر دیا۔ اے آر صدیقی لکھتے ہیں کہ جب بھی یحییٰ خان سے پوچھا جاتا کہ اِس نئے شہر میں آپ اپنا گھر کہاں بنائیں گے تو وہ جواب میں کہتے میں گھر نہیں، شہر بناتا ہوں۔ یہ سب پڑھتے ہوئے مجھے علی یحییٰ یاد آ گئے جو یحییٰ خان کے اکلوتے صاحبزادے تھے۔

ایک دفعہ میں نے اُن سے پوچھا کہ گوہر ایوب سیاست میں آ گئے، اعجاز الحق بھی سیاست میں آئے، آپ سیاست میں کیوں نہیں آئے؟ علی یحییٰ مسکرائے اور کہا تاکہ تم یہ طعنہ نہ مار سکو کہ اگر یحییٰ خان کا بیٹا سیاست میں آ سکتا ہے تو بھٹو کی بیٹی کیوں نہیں آ سکتی؟ پھر وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہا، تم ہر 16؍دسمبر کو میرے باپ کی ایسی تیسی کرتے ہو، ٹھیک ہے، میرے باپ نے بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن اس نے پیسہ نہیں بنایا، پورا اسلام آباد شہر بنا دیا لیکن ایک کنال کا پلاٹ بھی نہیں لیا۔

اے آر صدیقی لکھتے ہیں کہ 19؍فروری 1969کو بریگیڈیئر غلام عمر نے مجھے بلایا اور راز داری کے ساتھ کہا کہ جنرل یحییٰ خان کا قوم سے خطاب تیار کرو۔ صدیقی صاحب سے کہا گیا کہ کسی اسٹینو گرافر سے یہ کام نہیں کرانا، تم نے سب خود کرنا ہے۔ یحییٰ خان نے 25؍مارچ کو اقتدار سنبھالا تھا لیکن اُن کی تقریر 34دن قبل تیار ہو چکی تھی۔

یحییٰ خان نے ٹیک اوور کر لیا تو بریگیڈیئر غلام عمر میجر جنرل بن گئے اور اے آر صدیقی کو جنرل یحییٰ خان کا چیف پریس ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ اِس کتاب میں دلچسپ واقعات بھی موجود ہیں۔

یحییٰ خان جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو ڈرامیٹک کلب کے ممبر تھے اور بڑی اچھی ایکٹنگ کرتے تھے۔ مئی 1968میں اُن کی مولانا عبدالحمید بھاشانی کے ساتھ ڈھاکہ میں ملاقات ہوئی۔

اِس ملاقات میں بھاشانی نے یحییٰ سے گزارش کی کہ اُن کے آبائی علاقے سنتوش میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے جس پر دو کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ اے این رضوی کو کہا گیا کہ یہ کام کرا کر دیں لیکن یہ منصوبہ بروقت شروع نہ ہوا۔

یحییٰ خان اکثر اوقات بھاشانی کے ساتھ ملاقات کی تفصیل ساتھی جرنیلوں کو ایکٹنگ کے ساتھ سناتے۔ وہ بھاشانی کی باقاعدہ نقل اُتار کر کہتے کہ شیخ مجیب غدار ہے، اُسے اگلے الیکشن میں منتخب نہ ہونے دیں اور پھر آنے والے دنوں میں بھاشانی فوجی حکومت کے غیر اعلانیہ اتحادی بن گئے۔

صدیقی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میجر جنرل غلام عمر نے اپنے پرسنل اسٹاف افسر لیفٹیننٹ کرنل ایس ڈی احمد کے ذریعے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مخالفین میں کروڑوں روپے تقسیم کئے لیکن اِس کے باوجود عوامی لیگ قومی اسمبلی کی313میں سے 167اور صوبائی اسمبلی کی 300میں سے 288نشستیں لے گئی۔

یحییٰ اور بھٹو دونوں مجیب کو اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ پھر ملٹری ایکشن ہوا جس کی فوج کے اندر کئی سینئر جرنیلوں نے مخالفت کی جن میں صاحبزادہ یعقوب علی خان اور کور کمانڈر لاہور بہادر شیر خان سرفہرست تھے لیکن یحییٰ خان نے کور کمانڈرز کی مخالفت کے باوجود ملٹری ایکشن کیا جس نے بحران کو سنگین کر دیا۔ پھر عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی۔

عوامی لیگ کے کچھ منتخب ارکان کی وفاداری تبدیل کرا دی گئی۔ جس نے وفاداری تبدیل نہ کی، اُسے نااہل قرار دے دیا گیا۔

قومی اسمبلی کی 78اور صوبائی اسمبلی کی 105نشستوں پر ضمنی الیکشن کروا کر تماشا لگایا گیا جس میں بھٹو، اصغر خان اور خان عبدالقیوم خان نے یحییٰ خان کا ساتھ دیا۔

اِس تماشے نے بنگالیوں میں نفرت پیدا کی جبکہ جنرل امیر عبداللہ نیازی مشرقی پاکستان کی اصل صورتحال سے جنرل یحییٰ خان کو بے خبر رکھتے تھے اور اُن کی اِس دھوکہ دہی کے باعث کچھ غلط فیصلے ہوئے جن کا نتیجہ پاکستان کے ٹوٹ جانے کی صورت میں نکلا۔ 16؍دسمبر 1971کو 90ہزار پاکستانی بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔

انکوائری ہوئی۔ انکوائری میں اُن سب ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی جن کا ذکر اے آر صدیقی کی کتاب میں بھی ہے لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اِس کتاب کا سبق یہ ہے کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔