27 دسمبر ، 2020
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
عمران خان نے سچی بات کی ہے کہ ’’کسی بھی سیاسی جماعت کو تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہئے۔ حکومت میں آئے تو تین ماہ صرف معاملات سمجھنے میں لگ گئے‘‘۔
اپوزیشن سے تو خیر اِس سچائی کا مذاق اُڑانے کی توقع تھی ہی، جو اس نے من و عن پوری کی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر حکومتیں تیاری کے بغیر آتی رہی ہیں۔ وہ عمران خان کی طرح سچ بولنے کی جرأت کرنے کی بجائے کہتے تھے کہ ابھی تو ہمیں چند ماہ ہی ہوئے ہیں حکومت میں آئے، ابھی صبر کرو۔ خان صاحب نے یہ بات ذرا سچے انداز میں کہہ دی ہے۔ خان صاحب بھی اگر 126دن دھرنوں میں ضائع نہیں کرتے اور حکومت کرنا سیکھتے تو آج اُنہیں یہ کڑوا سچ نہ بولنا پڑتا۔ ہمارے ہاں حکومت سکھانے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت کی ماں برطانیہ ہے۔
وہاں کہا جاتا ہے کہ جب میجر جان وزیراعظم تھے اور لیبر پارٹی کے حکومت بنانے کے امکانات ہورہے تھے تو انہوں نے ٹونی بلیئر کو خط لکھا تھا کہ بارہ سال سے آپ کا کوئی لیڈر حکومت میں نہیں رہا ہے۔ اس لئے آپ تربیت حاصل کرنے کے لئے چند ارکان کا تقرر کریں۔ حکومت اُنہیں تربیت دے گی۔ آپ چونکہ حکومت میں نہیں ہیں۔ اِس لئے آپ کو اُس کی فیس دینا ہوگی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پہلے کابینہ میں رہنے کا تجربہ تھا۔ اس لئے وہ اچھی حکمرانی کرگئے۔ فوج جب حکومت سنبھالتی ہے تو پوری تیاری کے ساتھ۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ وہاں ایسی رپورٹیں بنتی رہتی ہیں کہ حکومت میں آکر کیا کرنا چاہئے۔ ایک سالانہ رپورٹ تیار ہوتی ہے۔ جس پر کئی مہینے صرف ہوتے ہیں۔ اُسے National Strategy Paperکہا جاتا ہے۔
ملک کے اقتصادی سیاسی سماجی دفاعی معاملات کا جائزہ لے کر ایکشن پلان دیا جاتا ہے۔ اُس میں ممکنہ خطرات سے بھی باخبر کیا جاتا ہے۔ اُس کی پیشکش بڑے اہتمام سے ہوتی ہے۔ اُس وقت کے سربراہ حکومت کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ فوجی حکمران اس میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ منتخب سیاسی حکمران اسے ہمیشہ ٹالتے رہتے ہیں۔ شریک ہوتے ہیں تو بہت ہی کم وقت کے لئے جبکہ سیاسی حکومتیں خود ایسی کسی رپورٹ کی زحمت نہیں کرتی ہیں۔
امریکہ میں صدارتی نظام ہے۔ وہاں ہر چار سال بعد ملک بھر کے تھنک ٹینک انتخابی سال کے دوران سارے شعبوں پر بڑی جامع رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی رپورٹ بنانے والے اکثر اہم ملکوں کا دورہ کرتے ہیں۔ الیکشن میں فتح مند پارٹی کو یہ رپورٹیں پیش کردی جاتی ہیں۔ اِس طرح ہر شعبے کی تازہ ترین صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ وہ اِن رپورٹوں میں سے ہی آئندہ چار سال کے لئے ایکشن پلان ترتیب دیتے ہیں۔ 20جنوری کو جب نئے صدر کی حلف برداری ہوتی ہے اور وہ اپنی ٹیم کے ارکان مقرر کر چکا ہوتا ہے۔ اُسے یہ آسانی ہے کہ اُسے منتخب ارکان میں سے یہ ارکان نہیں لینا ہوتے۔ وہ ہر شعبے کے تجربہ کار، اُس شعبے کے معاملات پر کام کرنے والے ماہرین کو ہی سیکرٹری مقرر کرتا ہے، ہم انہیں وزیر کہتے ہیں۔
پارلیمانی نظام میں حکومت کبھی بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ اِس لئے متعلقہ اپوزیشن پارٹیاں شیڈو کیبنٹ (متبادل کابینہ) مقرر کرتی ہیں۔ اُن کے انچارج ہر وزارت کی کارکردگی کی روزانہ مانیٹرنگ کرتے ہیں اور معاملات سے نمٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں ابتدا سے ہی ایسی کوئی روایت نہیں رہی ہے۔ حکومت گرانے کا ہر پارٹی کو تجربہ ہے۔ اِس میں غیرسیاسی ادارے بھی تعاون کرتے ہیں۔ حکومت بنانے اور کرنے کا تجربہ کسی کو نہیں ہے۔ زیادہ تر یہی سوچ ہوتی ہے کہ جب حکومت میں آئیں گے تو سیکرٹریوں کی مدد سے حکومت چلا لیں گے۔ اگر فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہوں تو اور زیادہ اطمینان ہوتا ہے۔ اب اِس وقت جو 11پارٹیاں عمران حکومت گرانے کے لئے لوگوں کو کورونا کے منہ میں دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کررہی ہیں، اِن میں سے بھی کسی نے باقاعدہ شیڈو کابینہ نہیں بنائی ہے۔
میں بار بار پارٹیوں کی ملک گیر تنظیم پر زور اس لئے دیتا ہوں کہ پارٹی ہیڈ کوارٹر کو ڈیٹا اور فیڈ بیک دیتے ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت باخبر رہتی ہے۔ ملک کا درد رکھنے والی سیاسی قیادتوں کے آج کل کے ہیڈ کوارٹر تحقیق اور کام کے لئے باقاعدہ تجربہ کار اسٹاف رکھتے ہیں۔ جن کا پارٹی رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی کا نیا ہیڈ کوارٹر 1150مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ شیڈو کابینہ وہیں بیٹھتی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے دفاتر 387فٹ بلند مل بینک ٹاور میں ہیں۔ ترکی کے صدر اردوان کی پارٹی کا انقرہ میں ہیڈ کوارٹر کئی منزلہ ہے۔ جہاں 24گھنٹے کام ہوتا ہے۔ بھارت میں بی جے پی کے نئے ہیڈ آفس کی سات منزلہ بلڈنگ میں 70کمرے ہیں۔ کانگریس اپنے دفتر 24اکبر روڈ سے 9کوٹلہ روڈ چھ منزلہ اندرا گاندھی بھون میں منتقل ہوگئی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1988میں وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے سیکرٹری سید محب اللہ شاہ حالات پر کڑھ کر کہتے تھے۔ Running A Federal Government Is A Serious Job۔ ہمارے ہاں حکومت ملتے ہی پوری پارٹی ایوان صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں منتقل ہو جاتی ہے۔ پارٹی دفاتر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، اب بھی کسی پارٹی کے ہیڈ آفس میں روزانہ کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ اس موضوع پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
ایک مشترکہ تجربہ ہر حکومت میں ہوتا آیا ہے کہ بعض ٹیکنیکل وزارتوں کے لئے ٹیکنو کریٹ ڈھونڈے جاتے ہیں، اُن کے تجربے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اِس طرح عالمی بینک آئی ایم ایف حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اب عمران خان کی سچی بات کو اس کی نا اہلی سمجھنے کی بجائے اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ بڑی پارٹیوں کو نہ صرف اپنے باقاعدہ عملی ہیڈ آفس منظم کرنے چاہئیں۔ ہر علاقے سے ڈیٹا اور فیڈ بیک کے لیے صوبائی اور ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی بنانے چاہئیں۔ ورنہ اسی طرح کام کے گھنٹے نہیں بلکہ مہینے سال ضائع ہوتے رہیں گے فراز نے کہا تھا:
عمران خان کے بیان کے حوالے سے کہیں گے:
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔