Time 04 فروری ، 2021
بلاگ

ایک تھی تحریک انصاف

فائل فوٹو

عمران خان کی حکومت اور اُن کی اپوزیشن دونوں ایک سراب ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سراب کہاں سے آ گیا؟ اُردو اخبارات و جرائد اور کتابوں کے قارئین کے لئے سراب کوئی نیا لفظ نہیں ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کے کچھ انگلش میڈیم رہنمائوں کے لئے سراب کا مطلب سمجھنا مشکل ہے۔ یہ انگلش میڈیم سیاستدان اُردو زبان میں تقریریں تو کر سکتے ہیں لیکن اردو لکھ اور پڑھ نہیں سکتے۔

دراصل صحرائوں میں رہنے والے سراب سے دھوکہ نہیں کھاتے لیکن بڑے بڑے شہروں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے سراب سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ دھوپ کی شدت میں جب صحرا کی ریت چمکتی ہے تو دور سے پانی کا تالاب نظر آتی ہے لیکن جب پیاسا بھاگتا ہوا پانی کے پاس پہنچتا ہے تو اُسے وہاں ریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

عمران خان ایک نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئے تھے۔ وہ ظلم و ناانصافی کے شکار بہت سے مظلوموں کے لئے اُمید کی ایک کرن تھے لیکن جس طریقے سے اُنہیں حکومت میں لایا گیا اور پھر جس طرح انہوں نے پرانے پاکستان کے پرانے چہروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرکے حکومت چلانی شروع کی تو پہلے چھ ماہ کے اندر ہی پتا چل گیا کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک سراب ہے۔ عمران خان کو ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔

اُنہوں نے اس تعاون کے ذریعے عوام کے مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے ایک طرف اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں تو دوسری طرف عدلیہ اور میڈیا پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔

ابھی اُن کی حکومت کا ایک سال پورا نہیں ہوا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے عمران خان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ ستمبر 2020 کے پہلے ہفتے میں پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور بہت سے دیگر رہنما شریک ہوئے۔

کچھ دنوں بعد 20ستمبر 2020کو اسلام آباد میں ایک اور آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نیا سیاسی اتحاد معرضِ وجود میں آیا۔ اِس اتحاد کی 26نکاتی قرارداد میں کھل کر مطالبہ کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت بند کرے، عدلیہ پر دبائو ختم کیا جائے اور میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ پی ڈی ایم کا قیام اور اُس کی 26نکاتی قرارداد مقتدر حلقوں کے لئے غیرمتوقع تھی۔

حکومتی وزراء نے پی ڈی ایم کو غیرملکی طاقتوں کا آلہ کار قرار دے کر بوکھلاہٹ کا ثبوت دیا اور کچھ ہی دنوں بعد 28؍ستمبر 2020کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف گرفتار کر لئے گئے۔ اس گرفتاری نے مفاہمت کے بیانیے کا خاتمہ کر دیا اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت مریم نواز کے ہاتھ میں آ گئی۔

17اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ تھا۔ اس جلسے میں ایک طویل عرصے کے بعد عام لوگوں نے بڑے بھرپور انداز میں شرکت کی لیکن پی ڈی ایم کی قیادت جلسے میں بروقت نہ پہنچ سکی۔

اس جلسے میں نواز شریف نے وڈیو لنک سے خطاب میں فوجی قیادت پر بھرپور تنقید کی ... پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ کراچی میں تھا۔ یہ بھی ایک بڑا جلسہ تھا۔ اِس جلسے کی میزبان پیپلز پارٹی تھی۔ اِس جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کا لب و لہجہ بدلنے لگا۔ پیپلز پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کی بات شروع کر دی اور مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں سے استعفوں پر زور دینے لگی۔

اپوزیشن اتحاد کے اندر مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ ن نے ایک خفیہ اتحاد بنا لیا۔ پی ڈی ایم نے یکم فروری کو لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا لیکن یہ اعلان چار فروری تک ملتوی ہو گیا لہٰذا میڈیا کے ایک حصے سمیت وفاقی وزراء اور ترجمانوں کی فوج نے پی ڈی ایم کو ناکام قرار دے دیا۔

یقیناً پی ڈی ایم کی حکمتِ عملی میں بہت سے نقائص تھے اور پی ڈی ایم بھی فی الحال ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں لیکن عمران خان کی حکومت اس سراب سے بھی اتنی خوفزدہ تھی کہ 13؍دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے ایک دن قبل شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ شیخ صاحب مانیں نہ مانیں لیکن اُنہیں وزیر داخلہ عمران خان نے نہیں پی ڈی ایم نے بنایا ہے۔

غالب امکان یہ ہے کہ پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن کے بعد لانگ مارچ بھی کرے گی اور استعفوں کا آپشن بھی ختم نہیں ہوگا لیکن جیسے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو عمران خان نے سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کے لئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کر دیا۔

یہ ریفرنس کسی انجانے خوف کا اظہار تھا۔ پھر سیکرٹ بیلٹ ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کا اعلان ہوا۔ اس سلسلے میں مقتدر حلقوں سے مدد مانگی گئی لیکن انہوں نے معذرت کر لی تو عمران خان نے کسی بڑے اَپ سیٹ سے بچنے کے لئے پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ چوہدری صاحب اپنے پرانے ساتھی کامل علی آغا کو تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا مشترکہ امیدوار بنوانے میں کامیاب رہے۔

کامل علی آغا کو سینیٹ کا ٹکٹ عمران خان کی مہربانی سے نہیں مجبوری سے ملا ہے اور مجبوری کا نام پی ڈی ایم ہے۔ وہ عمران خان جو حکومت میں آنے سے پہلے کہتے تھے کہ اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے کرپشن بڑھتی ہے، اب اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بھی دے رہے ہیں۔

عمران خان نے کبھی فارن فنڈنگ کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن پی ڈی ایم کے دبائو پر یہ کہتے دکھائی دیے کہ اِس کیس کی سماعت ٹی وی کیمروں کے سامنے کر لی جائے لیکن الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے وکیل نے تحریری طور پر عمران خان کی اس پیشکش سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا ہے۔

عمران خان کے ترجمان پی ڈی ایم کو کچھ بھی کہیں لیکن اگر وہ پی ڈی ایم کی 26نکاتی قرار داد کو پڑھیں تو اُنہیں پتہ چلے گا کہ اِدھر عاصم سلیم باجوہ کا نام اس قرارداد میں آیا اُدھر انہوں نے مشیر اطلاعات کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اِدھر اسٹیبلشمنٹ کا ذکر قرار داد میں آیا اُدھر عمران خان سے کہا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی سے اپنے معاملات خود طے کیجئے اور پھر خان صاحب کو چوہدری صاحب کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔

آج کل خان صاحب بار بار پرویز مشرف پر تنقید کرنے لگے ہیں۔ نجانے وہ کون سے خوف کا شکار ہیں۔ پی ڈی ایم کی کمزور حکمت عملی کے باعث عمران خان کی حکومت تو قائم ہے لیکن عمران خان کی اپنی غلطیوں کے باعث تحریک انصاف ماضی کا قصہ بن چکی۔

اگر عمران خان کے لئے سب اچھا نہیں تو پی ڈی ایم کی دو جماعتوں کے لئے بھی سب اچھا نہیں۔ آئین کے اندر ہی اندر ایسا بہت کچھ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی بہت کچھ کھو سکتے ہیں اور پی ڈی ایم بھی بکھر سکتی ہے۔ پھر تاریخ میں یہی لکھا جائے گا کہ ایک تھی پی ڈی ایم اور ایک تھی تحریک انصاف۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔