25 فروری ، 2021
دو سیاستدان پاکستان کے دو مختلف چہروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک کا نام پرویز رشید ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جس نے طالب علمی کے زمانے میں پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف مزاحمت سے سیاست شروع کی۔
دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے خلاف بھی پرویز رشید نے مزاحمت کی۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی فوجی عدالتوں سے سزائیں پائیں اور چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر اس آدمی کے ساتھ جو جسمانی تشدد اور زیادتی ہوئی وہ ناقابلِ بیان ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا خیال تھا کہ اُس نے پرویز رشید کے ساتھ جو کروایا ہے اُس کے بعد یہ آدمی سیاست چھوڑ دے گا اور کبھی کسی کے سامنے نظریں اٹھا کر بات نہیں کر سکے گا لیکن جب اُسی پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ قائم ہوا تو پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات بن چکے تھے۔
مشرف کو اس مقدمے سے بچانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اُسے پاکستان سے فرار کرا دیا جائے۔ مشرف کے سرپرستوں کا خیال تھا کہ پرویز رشید اُن کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ وہ مشرف کو عبرت کی مثال بنانے کے حامی تھے تاکہ آئندہ کوئی وردی والا سیاست میں مداخلت کی جرأت نہ کرے۔ پرویز رشید کو راہِ راست پر لانے کے لئے پہلے ذرا پیار سے بات کی گئی۔
ایک دوست کے ذریعہ انہیں آفر کی گئی کہ آپ مشرف کو پاکستان سے باہر بھیجنے کی مخالفت نہ کریں، اس کے عوض آپ کو بھاری رقم دی جائے گی اور اس رقم کو قابلِ قبول بنانے کے لئے کہا گیا کہ آپ یہ رقم اُن لاپتہ افراد کے خاندانوں میں تقسیم کر دیں جو مشرف دور میں غائب ہو گئے تھے۔ پرویز رشید نے اس پیار بھری پیشکش کو مسترد کر دیا۔
دوسری طرف نواز شریف کی کابینہ میں شامل کئی وزراء اس خیال کے حامی تھے کہ اگر ہم پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دیں تو ان کے سرپرستوں کے ساتھ ہماری محاذ آرائی ختم ہو جائے گی اور پاکستان کو ایک ماڈرن ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ شاید اسی خیال کے تحت جنرل پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن موصوف کی روانگی کے بعد نواز شریف کے لئے مشکلات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئیں۔
اکتوبر 2016میں انگریزی اخبار ڈان نے صفحہ اول پر ایک خبر شائع کی جسے سیرل المیڈا نے لکھا تھا۔ اس خبر کے مطابق کچھ عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ بعض کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اس خبر سے ڈان لیکس اسکینڈل نے جنم لیا۔
نواز شریف حکومت کے ایک وزیر نے حکومت کو اس مشکل سے نکالنے کے لئے پرویز رشید سے قربانی مانگی اور جمہوریت کے اس بےتیغ سپاہی نے کوئی بحث کئے بغیر وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے پرویز رشید سے شدید اختلاف کیا۔
میرا موقف یہ تھا کہ اس قربانی کے باوجود آپ کے وزیراعظم کو حکومت سے نکال دیا جائے گا، آپ کو اپنا بھرپور دفاع کرنا چاہئے تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے پرویز رشید اور عطاء الحق قاسمی کے خلاف ایک فیصلہ دلوایا گیا جس کا مقصد پرویز رشید کے کردار پر ایک ناکردہ گناہ کا داغ لگانا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف پرویز رشید نے نظرثانی کی درخواست دائر کی جس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
2021میں سینیٹ کا الیکشن قریب آیا تو اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ پرویز رشید کو سینیٹ کا الیکشن لڑنے دیا جائے گا یا نہیں؟ اس بحث کی وجہ سیرل المیڈا کا صحافت چھوڑ جانا تھا۔
وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن سیرل المیڈا کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ انہوں نے صحافت چھوڑ دی۔ اسلام آباد کے بہت سے شکی مزاج صحافیوں کا خیال تھا کہ پرویز رشید کو پھر سے سینیٹر نہیں بننے دیا جائے گا۔
پاکستان کو ہر قسم کے حالات میں پازیٹو سائیڈ سے دیکھنے کے حامی کچھ دوست کہتے رہے کہ پرویز رشید اتنے اہم نہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ اُن کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اُنہیں سینیٹ میں جانے سے روک دے۔ افسوس کہ آخر میں شکی مزاج صحافیوں کی رائے درست نکلی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ایسے دعوے کی بنیاد پر پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے جو کسی مذاق سے کم نہیں۔ پرویز رشید کے ذمہ پنجاب ہائوس اسلام آباد کے کچھ واجبات ڈالے گئے۔ جب وہ واجبات ادا کرنے گئے تو وصول کرنے سے انکار کر دیا گیا اور عدم وصولی کو وجہ بنا کر پرویز رشید کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف پرویز رشیدکی اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔
قانون کے تحت وہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر سکتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ مجھے سینیٹ میں جانے کا اتنا شوق نہیں، میں سب سے پہلے اُس جھوٹ کو بےنقاب کروں گا جس کو بنیاد بنا کر مجھے نا اہل قرار دیا گیا۔ سیاسی منظر پر کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ دوستوں کو غلط فہمی ہے کہ حالات بھی بدلنے والے ہیں۔
میری ناقص رائے میں صرف کردار بدلیں گے، حالات نہیں کیونکہ پرویز رشید پاکستان کے جس چہرے کی عکاسی کرتے ہیں وہ چہرہ زخمی ہے۔ اس چہرے پر لگے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پھینکا جا رہا ہے۔ پاکستان کا ایک اور بھی چہرہ ہے۔ اس چہرے کا نام فیصل واوڈا ہے۔ یہ صاحب قومی اسمبلی کے رکن ہیں لیکن نا اہلی کے ڈر سے سینیٹر بننا چاہتے ہیں۔
ان پر بھی بہت اعتراضات ہوئے لیکن الیکشن کمیشن نے اُن کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے کیونکہ وہ پانچ ہزار افراد کو چوراہوں پر لٹکانے اور گاڑیوں کے ساتھ باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے حامی ہیں۔ ان پانچ ہزار افراد میں سیف اللہ ابڑو شامل نہیں جن پر فیصل واوڈا کی پارٹی کے رہنما لیاقت جتوئی نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 35کروڑ روپے کے عوض سینیٹ کا ٹکٹ خریدا۔ ان پانچ ہزار افراد میں صرف تحریک انصاف کے مخالفین شامل ہیں اور ان میں شہباز شریف بھی شامل ہیں، جو مفاہمت کی سیاست کے حامی رہے ہیں۔
فیصل واوڈا اس پاکستان کے نمائندے ہیں جو مزاحمت کے علمبردار پرویز رشید اور مفاہمت کے حامی شہباز شریف کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جس میں حفیظ شیخ اور عمر ایوب خان جیسے لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، لیڈر بدلتے رہتے ہیں اور ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہ اہل بھی ہیں اور محب وطن بھی۔ پرویز رشید جیسے لوگ نا اہل بھی ہیں اور غدار بھی۔ ان حالات میں بھلے عمران خان کو ہٹا کر قومی حکومت بنا لیں لیکن وہ نیشنل ڈائیلاگ شروع نہیں ہو سکتا جس کا مقصد سب اداروں کو ایک قومی بیانیے پر راضی کرنا ہے۔
قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے لیکن دو سیاستدانوں کی دو مختلف کہانیاں صاف صاف بتا رہی ہیں کہ فی الحال پرویز رشید کا پاکستان اور ہے اور فیصل واوڈا کا پاکستان کوئی اور ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔