26 فروری ، 2021
پچھلے دنوں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے سیاسی کارکنوں کے لواحقین اسلام آبادمیں احتجاج کے لیے آئے ان میں وہ بچیاں بھی شامل تھیں جن کے والد اور بھائی دس دس سال سے لاپتا ہیں۔ جبری طور پر گمشدہ ہونے والے کارکنوں کے لواحقین نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر اور پھر ڈی چوک پر اپنا احتجاجی کیمپ لگایا جہاں ان کی آہ وبکا سن کر ہر پاکستانی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
اس دوران سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی نے نہ صرف لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ اس کو ایک سنگین انسانی مسئلہ قرار دیا۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نے بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایااور ہدایت جاری کی کہ اس پر جلد قانون سازی کی جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جبری گمشدگیوں کے بارے میں کہا ہے کہ اگر ریاستی ادارے شہریوں کو اغوا کریں تو یہ جبری گمشدگی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت اور سنگین ہو گیا جب پاکستان کی مختلف حکومتوں نے بین الاقوامی فورمز پر جبری گمشدگی کے مسئلے پر نہ صرف کوئی واضح حکمت عملی اختیار نہیں کی بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ایک وفد اس سلسلے میں تفتیش کیلئے پاکستان آیا تو حکومتی عہدے داروں نے ان سے ملنے میں سرد مہری کا مظاہر ہ کیاجس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستانی حکام اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
بین الاقوامی سطح پراقوام متحدہ اور یورپی یونین کے انسانی حقوق کے فورمز پر بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔ مسلم لیگ ن کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اس اہم مسئلہ کو قابل توجہ نہ سمجھا۔ جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں قائم ہونے والے کمیشن نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بہت سی سماعتیں کیں جو کہ میڈیا کی زینت بھی بنیں لیکن پھر بھی لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے خاطر خواہ اقدامات عمل میں نہ آ سکے۔
حال ہی میں انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں ورچوئل خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس پر جلد قانون سازی کی جائے گی۔ حیرت یہ ہے کہ اس مسئلہ پر آج تک کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکی۔ یاد رہے کہ 1973ء کے آئین کے مطابق ہر شہری کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
آج اکیسویں صدی میں ہمیں ہر صورت وقت کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک مضبوط پاکستانی قوم بننے کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ مضبوط اور واحد قوم بننے کیلئے ضروری ہے کہ اس خطہ میں آباد مختلف قومیں جو اس وفاقیت کے فطری اجزاء ترکیبی بھی ہیں ، یعنی پنجابی، سرائیکی، سندھی، پختون اور بلوچوں کی باہمی رضامندی سے ان کے سیاسی مسائل اس طرح حل کیے جائیں کہ سب مل کر اپنے آپ کو پاکستانی شہری کہلوانے پر ناز کریں۔
تب ہی ملک میں جمہوریت پھل پھول سکتی ہے اور سیاسی استحکام پیدا ہو سکتا ہے ورنہ پچھلے 74سالوں کی طرح ہمیں وقتا فوقتا پھرسیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور مبصرین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک گول دائرے میں گھو م رہی ہے اور بلوغت کا نام نہیں لیتی۔ دو قدم آگے بڑھتی ہے تو چار قدم پیچھے دھکیل دی جاتی ہے۔
آج ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا شعور ہونا چاہئے کہ پاکستان میں قوموں کے سیاسی مسائل کا حل جمہوریت کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور ایک مضبوط مرکز کے بجائے ایک مضبوط وفاقی پاکستان کی طرف پیش رفت ہی اس کا حل ہے جس میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں جب نازی ہٹلر نے جرمنی میں اقتدار سنبھالا اور نازی ازم کو نافذ کرتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کو کیمپوں میں نہ صرف مقید کیا بلکہ ان کو شدید ریاستی تشدد کا بھی نشانہ بنایا اور لاتعداد مخالفین کو قتل کر دیا ۔
اٹلی میں مسولینی حکومت نے فاشزم کا نفاذ کیا اور جمہوریت نواز سیاسی کارکنوں اور کمیونسٹوں کوجبری گمشدگیوں میں رکھااور بہت سارے لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح ساٹھ کی دہائی میں بہت سارے لاطینی امریکہ کے ممالک میںجب بائیں بازو کی پارٹیوں نے مون رو ڈاکٹرائن (Monroe Doctrine) سے جان چھڑانا شروع کیا تو امریکہ کے ایما پر سیاسی کارکنوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔
انڈونیشیا میں ستر کی دہائی میں اسی طرح ریاستی جبر کے ذریعے سیاسی کارکنوں کے اغوا اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کی ایک لمبی داستان موجود ہے۔ آج اکیسویں صدی میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی قتل کی داستانیں قصۂ پارینہ بن چکی ہیں لیکن پاکستان، ہندوستان، برما اور تیسری دنیا کے کئی ممالک اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ ہم گلوبل دنیا کا حصہ بن سکیں اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور ریاست کے درمیان ایسا مضبوط رشتہ بن سکے جس میں ہر شہر ی کو بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ آئین کے تحت میسر ہو اور تمام ادارے ایسی مضبوط روایتوں کے امین ہوں کہ وہ آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے اداروں کو مضبوط کر سکیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔