25 مارچ ، 2021
ہر سال یومِ پاکستان ہو یا یومِ آزادی، قراردادِ پاکستان کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے، اس ملک کے قیام کے لئے دی گئی قربانیوں اور جدوجہد کو یاد کیا جاتا ہے، دو قومی نظریے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے وعدے کو دہرایا جاتا ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے بارے میں وژن اور علامہ اقبالؒ کے خواب اور اُس کی تعبیر کی بات بھی کی جاتی ہے۔
صدر مملکت، وزیراعظم اور دوسرے ذمہ داران ہر سال ان مواقعوں پر اپنے اپنے پیغامات کے ذریعے پاکستان کو اُس کی تعبیر کے مطابق بنانے کا اعادہ کرتے ہیں۔ اخبارات اسپیشل ایڈیشن جاری کرتے ہیں۔ ہر سال ایک ہی کہانی کو دہرایا جاتا ہے لیکن عمل کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے قیام کو ستر سال سے زیادہ گزر گئے لیکن جس اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا گیا تھا اُس کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔
اسلام کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن ہماری ریاست، حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اقدامات سے کہیں نظر نہیں آتا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوری بعد قرارداد مقاصد کو بھی پاس کر لیا گیا جس میں اس بات کا تہیہ کیا گیا کہ اس ملک کا نظام قرآن و سنت کے مطابق چلایا جائے گا، پاکستان کا آئین بھی اسلامی بن گیا لیکن عمل زیرو جس کی وجہ سے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔
ہمارا آئین جس پاکستان کی بات کرتا ہے وہ پاکستان ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا ﷲ‘‘ کے نعرے پر اس ملک کے قیام کے لئے جدوجہد کی گئی، قائداعظم نے بار بار اسلامی پاکستان، شریعت اور اسلامی فلاحی ریاست کی بات کی، قیام پاکستان کے فوری بعد اُنہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے Department of Islamic Reconstruction بھی قائم کیا جس کا سربراہ اسلامی اسکالر علامہ محمد اسد کو بنایا گیا لیکن قائد کی وفات کے بعد سب کچھ بدل گیا اور ایسا بدلا کہ آج تک پاکستان کے قیام کے اصل مقصد سے ہم دور ہی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ اگر سچ پوچھا جائے تو ہم قیامِ پاکستان کے مقصد سے غداری کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے اسلام کا نام تو ضرور لیا لیکن اس کے نفاذ کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہ کی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہمارے سیاستدان، حکمران، ممبران اسمبلی کھلے عام سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کی کسی بھی اسلامی شق کو اُٹھا لیں اُس پر کوئی عمل درآمد نظر نہیں آئے گا بلکہ ایک ایک اسلامی شق کی کھلے عام خلاف ورزی معمول بن چکا ہے جو نہ صرف آئین پاکستان کے ساتھ بلکہ مقصد پاکستان کے ساتھ بھی غداری ہے لیکن افسوس کہ اسے بُرا نہیں جانا جاتا۔
آئین کی پاسداری اور عملداری پر زور تو دیا جاتا ہے، اداروں کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ آئین کے خلاف ہے، بار بار کہا جاتا ہے کہ سب ادارے آئین کے تحت مقرر کی گئی حدود میں رہ کر اپنا اپنا کام کریں، آئین کی حکمرانی کا نعرہ تو بڑا پسندیدہ ہے لیکن اگر آپ کبھی یہ سوال اُٹھا دیں کہ آئین کی اسلامی شقوں پر عملددرآمد کیوں نہیں ہوتا؟
کیا یہ آئین سے غداری نہیں؟ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے سارے کے سارے چیمپئن خاموش ہو جاتے ہیں۔ کوئی عام فرد ایسا کرے تو قابلِ برداشت ہے لیکن اگر حکمران، ممبرانِ پارلیمنٹ، عدلیہ اور ریاست کے ذمہ داران آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی کریں اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی مخالفت کریں تو وہ آئینی اور قانونی طور پر قابلِ گرفت ہیں، اُنہیں تو اس صورت میں کوئی ریاستی ذمہ داری نہیں دی جا سکتی، وہ تو پارلیمنٹ کے ممبر رہنے کے اہل نہیں ہو سکتے لیکن یہاں سب چلتا ہے۔
نظریہ پاکستان اور اسلامی فلاحی ریاست کے مخالف پارلیمنٹ کے اندر بھی موجود ہیں اور اہم ریاستی و حکومتی عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ ہمارے کئی سیاستدان بھی پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے سرعام بات بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ آئین کی حکمرانی کے بھی چیمپئن بنتے ہیں۔ اس دوغلی پالیسی اور منافقت نے پاکستان کو اپنے قیام کے مقصد سے بہت دور کر دیاہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔