27 مارچ ، 2021
جون 1999میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کا تنازعہ عروج پر تھا تو ایک روز بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری شکتی سنہا کو کہا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
سرینگر سے دونوں وزرائے اعظم کی فون پر بات کرانے کی کوششیں شروع ہوئیں تو بھارتی وزیراعظم کے اسٹاف کو پتہ چلا کہ سرینگر سے پاکستان میں ٹیلی فون ڈائل کرنے پر پابندی ہے۔ واجپائی کیلئے یہ پابندی نرم کر دی گئی اور یوں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان تنازعے کے عروج کے دنوں میں گفتگو ہوئی۔
دونوں ایٹمی طاقتوں کے وزرائے اعظم کے درمیان اس تاریخی تنازعہ کے دوران کم و بیش پانچ مرتبہ فون پر بات ہوئی۔ واجپائی سے گفتگو میں نواز شریف یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کہ تنازعہ پاکستان کی طرف سے شروع ہوا ہے پھر بھارتی وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دورہ چین کے دوران اُس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز سے گفتگو کی اور دو مختلف ٹیپس ثبوت کے طور پر نواز شریف کو بھجوائیں۔
یہ ٹیپس بھارتی را کے سربراہ اروند دیو نے بھارتی وزیراعظم کو پیش کی تھیں جو بھارتی سفارتکار وویک کیٹجو اور پس پردہ چینل کے ذریعے مذاکرات کرنے والے آر کے مشرا کے ذریعے نواز شریف تک پہنچائی گئیں۔ بعد میں ان میں سے ایک ٹیپ میڈیا کو بھی شیئر کی گئی۔
اوپر درج واقعات حال ہی میں شکتی سنہا کی بھارت میں شائع کتاب The Years that Changed India میں سامنے آئے ہیں۔ سنہا کی کتاب ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دونوں ملکوں سے برسوں بعد امن کی آوازیں آنا شروع ہوئی ہیں۔
کتاب میں کارگل تنازعے پر بھارتی موقف پیش کیا گیا ہے۔ کارگل تنازعے کے دوران مشرف اور جنرل عزیز کی خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ پاکستان کے لئے کارگل تنازعہ اس لئے بڑا اہم ہے کہ اس سے قبل نواز شریف بھارتی وزیراعظم واجپائی کو پاکستان بلا کر دونوں ملکوں میں امن عمل شروع کر چکے تھے۔ کارگل سے نہ صرف امن عمل متاثر ہوا بلکہ نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف کے درمیان باہمی اختلافات اتنے بڑھے کہ 12 اکتوبر 1999کو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے سارک سربراہ کانفرنس میں خود آگے بڑھ کر واجپائی سے ہاتھ ملایا۔ کہتے ہیں جب تک آپ کسی عہدے پر خود براجمان نہ ہوں تو اس عہدے کے تقاضوں سے آگہی حاصل کر سکتے ہیں نہ اس عہدے پر رہ کر کیے گئے فیصلوں کی مشکل سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
وہی پرویز مشرف جن پر آرمی چیف کی حیثیت سے کارگل تنازعہ شروع کرنے کا الزام تھا جب ملک کے سربراہ بنے تو انہیں بھارت کے ساتھ امن کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ وہ جنگجو فوجی جرنیل سے امن کے پیامبر بن گئے۔ مشرف نے بھارت سے امن کیلئے دہلی کا دورہ کیا مگر پہلی کوشش ناکام ہو گئی۔ پھر انہوں نے پس پردہ چینلز کو اپنایا اور اپنے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے ذریعے خفیہ مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ امن کیلئے طارق عزیز نے بھارت کا خفیہ دورہ بھی کیا۔
بھارت سے امن مذاکرات اس قدر خفیہ رکھے گئے کہ مشرف کے اپنے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی کو اس بات پر اعتراض رہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ طارق عزیز کے مذاکرات کے بارے میں انہیں نہیں بتایا جاتا۔ مشرف ایک وقت میں امن کیلئے نواز شریف کے راستے پر چل پڑے جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے ناقابل قبول تھا۔ مشرف 2008 میں بظاہر وکلا تحریک کے بعد سیاسی عمل میں اقتدار سے رخصت ہوئے مگر ان کو گھر بھیجنے کی ایک وجہ ان کی بھارت کے ساتھ امن کی پالیسی بھی تھی۔
مشرف کا انجام نواز شریف سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ پیپلز پارٹی کا دور 2008 میں شروع ہوا تو نومبر 2008 کے ممبئی حملوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات پر برف کی تہہ ڈال دی۔ جو کئی سال تک جمی رہی۔ نواز شریف 2013میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو وہ بھارت کے ساتھ امن عمل کیلئے ایک بار پھر مصروف ہوئے۔ بھارتی انتخابات کے بعد ایک اجلاس میں انہیں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں نریندر مودی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کی تقریب میں جانے سے روکا مگر وہ امن عمل کے لئے بڑے قدم کے طور پر سب باتوں کو پس پشت رکھ کر بھارت پہنچے۔
مودی نے البتہ کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ نواز شریف امن چاہتے تھے مگر ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ میں چیلنجز کا بھی سامنا تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط، افسر وزارتِ خارجہ کے ہیں مگر بریفنگ کہیں اور سے لیتے ہیں لہٰذا نواز شریف نے اپنے طور پر بھارت کے ساتھ امن کی بحالی کی کوششیں کیں۔ جس میں جندل جیسے کاروباری افراد اور بھارتی صحافیوں کو بھی استعمال کیا گیا۔ نریندر مودی کے انتہا پسندانہ رویے اور سرحدوں پر کشیدگی کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔
بھارت کے ساتھ معاملے میں پاک فوج کی ایک کلیدی حیثیت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دور میں تحریک انصاف حکومت کی زیادہ توجہ نواز شریف اور زرداری کی سیاست ہے لیکن پس پردہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھارت کے ساتھ امن کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس عمل میں ماضی میں امریکہ کردار ادا کرتا تھا مگر اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس عمل کے سہولت کار ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان آئی ایس آئی اور را کے باہمی روابط استوار ہیں اور دونوں ملکوں کی افواج نے سیز فائر بھی کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں مارچ میں دونوں ملکوں کی سرحد پر ایک گولی بھی نہیں چلی۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی کورونا سے صحت یابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کا اہتمام بھی ہو جائے گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان باہمی اعتماد اگر کوئی مثبت نتائج دے سکتا ہے تو وہ امن ہی ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو خطہ بھی معاشی طور پر مستحکم ہو گا لیکن اس سارے عمل میں چیلنجز بہت بڑے ہیں کچھ دکھ رہے ہیں اور کچھ نظروں سے اوجھل۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)