پاکستان

رمضان المبارک کا احترام پامال نہ کریں

رمضان المبارک کی آمد تھی کورونا نے ایک بار پھر زور پکڑا ہوا تھا۔ کراچی میں لاک ڈاؤن، اسکولوں میں چھٹیاں، ریسٹورنٹس کی بندش، مارکیٹوں اور بازاروں میں جزوی کاروباری اوقات کا اعلان ہو چکا تھا، مگر ہمارے عوام ان احکامات سے سخت نالاں نظر آرہے تھے۔ وہ اس کو معاشی قتل، بے روزگاری سے تشبیہ دے رہے تھے۔

ادھر سندھ حکومت اپنی ناقص حکمت عملی سے کورونا کو روکنے میں ناکام ہو تی جا رہی تھی مگر ملبہ عوام اور تاجروں پر ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ مرکزی حکومت کو بھی ساتھ ساتھ موردِ الزام ٹھہرا رہی تھی۔ سیاسی مخالفین کو عوام سے زیادہ اپنی اپنی جماعتوں کی فکر تھی۔

ہر صورت میں یہ ناکام سیاست دان جو 2018کا الیکشن ہارکر اپنا بدلہ نام نہاد PDM کے پلیٹ فارم سے  PTIحکومت خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کے خلاف محاذ بنا کر جلسے جلوسوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک کیا ہوا 6 ماہ کی جدو جہد کا نتیجہ استعفوں کے آخری مراحل پر پی پی پی کی قیادت کے انکار پر ناکامی اور انتشار کا گولہ سیاسی میدان میں آکر پھٹ گیا اور مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کی ساری بنی بنائی حکمت عملی ناکامی میں تبدیل ہوگئی۔

جو کل تک ایک دوسرے سے شیرو شکر تھے ‘ایک دوسرے پر یوں برسنے لگے جیسے جانتے ہی نہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی نوجوان قیادتوں کو نئے موڑ دینے والے خود ہی آپس میں الجھ پڑے اور  PDMکا شیرازہ بکھر گیا۔ 

رہی سہی کسر بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمٰن کابھیجا ہوا محبت سے بھرا شوکاز پھاڑکر پوری کردی اور اس کو شرمناک حرکت اور پی پی پی کی خود مختاری پر ڈاکہ قرار دے کر آئندہ کی ساری حکمت عملی کا کریاکرم کر دیا۔ 

اس طرح پی ٹی آئی حکومت جس کی کشتی ڈانواں ڈول ہو تی جار ہی تھی جو ایک طرف اپنی ہی پارٹی کے صوبائی اورقومی اسمبلی کے ناراض ممبران جو جہانگیر ترین کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو چکے تھے، اُن سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ PDMکا قومی ترانہ بجنے سے اس کے اندر ایک نئی جان آگئی۔ اب بقایا 2 سال آرام سے گزار لے گی اور پوری PDM سیاسی عدت میں چلی گئی۔

اندرونی سیاست کی کہانی کے کچھ ٹکڑے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ جو میڈیا کے رکھوالے اپنی اپنی بساط بچھائے اپنے اپنے چینل پر الاپ رہے ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی خصوصاً عمران خان کو ایک اور لائف لائن دلوا دی گئی۔

ابھی عمران خان PDM کے جھٹکوں سے باہر نکلے ہی تھے کہ سیاسی شیر آف لال حویلی بے لگام وزیر داخلہ نے اچانک تحریک لبیک پاکستان کے نئے نوجوان سربراہ سعد رضوی جن کو سیاسی میدان میں اترے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے ان کے مرحوم والدخادم حسین رضوی کی طرح راتوں رات گرفتار کر لیا اور جیل میں ڈال دیاگیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ یہ سیاسی کم اور مذہبی جماعت زیادہ ہے جو ناموس رسالت کے نام پر تشکیل دی گئی تھی ،جس کے چاہنے اور ماننے والے صرف اور صرف ناموس رسالت سے واسطہ رکھتے ہیں اور 2018کے الیکشن میں بہت بڑی کارکردگی دکھا کر بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حیران کر چکے تھے۔

اس کے کارکنانPTIکی فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے وعدوں سے انحراف برداشت نہ کر سکے اور سڑکوں پر ہر شہر میں نکل پڑے۔ خصوصاً کراچی،لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور کے شہروں کا نظام درہم برہم کر ڈالا۔ عوام اس ناگہانی آفت سے آگاہ نہیں تھے نہ ہی انتظامیہ اور پولیس اتنی جلدی توقع کر رہی تھی تو حسب سابق بوکھلاگئی اور نئی مصیبت سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔

پتھراؤ،جلاؤ گھیراؤ ہرطرف دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا اور  پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اپنی عزت بچانے کے لئے حکومت نے جب پورا نظام درہم برہم ہوتے دیکھا تو فوج اور رینجرز سے ہنگامی طور پر نمٹنے کی درخواست کر کے اپنی ناکام حکمت عملی تسلیم کر لی ہے۔ دونوں طرف جان ومال کے نقصان سے عوام حیران و پریشان ہو گئے۔ 

عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان اور شیخ رشید کو ایسی کیا جلدی تھی اور رمضان المبارک کا مہینہ گزرنے کاانتظار کرلینے میں کیا قباحت تھی۔ پہلے سے ناراض کارکنوں کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟ وہ بھی ناموس رسالت کے حساس معاملے میں رمضان المبارک کے با برکت ماہ کی عظمت کو تہہ و بالاکرنے کاکس نے مشورہ دیا تھا۔

اس پر نگاہ ڈالیں اور فوری طور پر اس مسئلہ کو حل کریں اور اس آگ کو بڑھانے سے اجتناب کریں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جو معاہدہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کیا گیا تھا اس کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتامگر آخری خبر آنے تک تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگا دی گئی ہے جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے برابر ہو گا۔ افسوس ایک تو وعدہ کیا اور اس کو وفا نہ کیا اور اس کے برعکس ان پر پابندی لگا دی۔

مزید خبریں :