03 جولائی ، 2021
پاکستان کی برآمدات میں آج بھی ٹیکسٹائل سیکٹر پہلے نمبر پر ہے لیکن ٹیکسٹائل سیکٹر کو رواں دواں رکھنے والی کپاس حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ، کپاس کی کاشت ہر سال مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے زرعی ایمرجنسی پروگرام میں300 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی لیکن حیران کن طور پر اس پروگرام میں کپاس کی فصل کو شامل نہں کیاگیا۔
یہی وجہ ہے کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشہ تین سال سے بتدریج کپاس کی فصل کی کاشت اور کاٹن بیلز کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے، رواں سیزن میں صرف 30 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت سے 30 لاکھ بیلز ہی متوقع ہیں جبکہ مالی سال 2018 میں پروڈکشن 70 لاکھ بیلز تھیں۔
اس حوالے سے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے وائس چئیرمین شیخ عاصم سعید کا کہنا ہے کہ ملکی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا 61 فیصد حصہ ہے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی فصل کی کاشت پر توجہ نہ ہونے کے باعث صرف ایک سال میں کپاس کی درآمد دوگنا ہوگئی ہے ،مالی سال 2019 میں 5 لاکھ ٹن اور 2020 میں 8 لاکھ ٹن کپاس درآمد کی گئی۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق کپاس کی درآمد بڑھا کے ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانا ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتی۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن جنوبی پنجاب کے کنوینر خواجہ انیس کا کہنا ہے کہ کسان ناقص بیج اور زرعی ادویات کو کپاس کی فصل کی تباہی کا سبب سمجھتے ہیں کاٹن جنرز کپاس پر عائد ٹیکسزز کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اپٹما کپاس کی کاشت کو بڑھانے پر زور دے رہی ہے، ایسے میں دیکھنا یہ ہے کے حکومت ایسے کون سے اقدامات کرتی ہے جس سے ایک مرتبہ پھر کپاس کی فصل ملکی معیشت کا سہارا بن جائے۔