Time 24 جولائی ، 2021
پاکستان

آزاد کشمیر الیکشن۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں اور آزادکشمیر کے باسی تو بس ہم پاکستانیوں کی طرح آرام سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمیر کے باسی کچھ حوالوں سے مقبوضہ کشمیرکے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ کرب سے گزر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ آزادکشمیر میں رہنے والوں کا اپنا خون ہے اور اسے بہتا دیکھ کر وہ کچھ کرنہیں سکتے ۔ خصوصاً تقسیم شدہ خاندانوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔

پچھلے سال ایک کشمیری دوست کے بھائی کو مقبوضہ کشمیر میں شہید کیا گیا۔ ہم جب ان کے ساتھ فاتحہ خوانی کر رہے تھے تومیں سوچ رہا تھا کہ اس بھائی کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کاندھا بھی نہیں دے سکا۔ آزاد کشمیر کے لوگ گزشتہ ستر سال سے اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات میں رکاوٹیں دور کرنےکے لئے بے تاب ہیں اور ان کےد لوں میں سری نگر کی کشش مظفرآباد سے ہر گز کم نہیں۔ انہیں پاکستانی حکمرانوں نے مختلف خواب دکھائے۔ کبھی انہیں یہ تسلی دی گئی کہ اب سفارتکاری کے ذریعے ہم آپ کو آپ کا کشمیر دلوارہے ہیں۔ کبھی انہیں بتایا گیا کہ اب جہادی تنظیمیں چند سال میں ان کے بہن بھائیوں کو آزادی دلوادیں گی۔ اب انہیں بتایا جارہا ہےکہ سرحد پار کرنے والا کشمیر اور پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوگا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکالنے کے لئے ہندوستان کی حکومت نے ماضی میں انہیں ہر قسم کا لالچ اور ترغیب دی لیکن ہم نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی آڑ لے کر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کو جائز آئینی، مالی اور انتظامی حقوق بھی نہیں دیے۔ مرکز میں ایک وزارت دونوں کو کنٹرول کرتی چلی آرہی ہے اور پاکستان کی محبت میں گلگت بلتستان اور کشمیر کے غیور عوام یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے لیکن پاکستان میں تبدیلی کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے کئی بھیانک تبدیلیاں آئیں۔

پہلی تبدیلی یہ آئی کہ چونکہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر (واضح رہے کہ ان کا خاندان بھی تقسیم شدہ ہے) اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا ، اس لئے ان کے ساتھ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا کا رویہ مثالی رہا۔ نہ تو کشمیر کے حوالے سے انہیں کسی بیرونی دورے پر ساتھ لے جایا گیا اور نہ کشمیر سے متعلق کسی پیش رفت پر انہیں اعتماد میں لیا گیا۔ جب کبھی مجبوراً میٹنگنز ہوئیں تو عموماً عمران خان اور راجہ فاروق حیدر کی تلخ گفتگو کی خبریں باہر نکلیں۔ 

ایسے مواقع بھی آئے کہ اسلام آباد آکر کشمیر کے وزیراعظم نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے لئے کئی کئی روز تک انتظار کیا۔ پھر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی وزارت اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی ایسے افراد کے سپرد کر دی گئی جو پورے پاکستان میں غیرمحتاط زبان استعمال کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ وہ کشمیر یا گلگت بلتستان کی قیادت کو ساتھ چلاسکے اور نہ ہی کشمیریوں کی صفوں میں اپنے لئے قبولیت پیدا کرسکے ۔ 

قیام پاکستان کے وقت پختون قبائلیوں نے آزادکشمیر کی آزادی میں جو کردار ادا کیا تھا، اس کی وجہ سے کشمیری پختونوں سے خصوصی محبت کیا کرتے تھے لیکن اب انتخابی مہم کے دوران پختون وزیروں نے مہذب اور شائستہ کشمیریوں کے سامنے جو زبان استعمال کی اس کی وجہ سے ان کی نظروں میں پختونوں کی حیثیت بھی وہ نہیں رہی۔تاہم سب سے بڑا صدمہ جس سے آزادکشمیر کے باسی عمران خان کی حکومت میں دوچار ہوئے، وہ مودی کے ہاتھوں مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کرنے کا ہے۔

عمران خان نے انہیں بتایا تھا کہ جب مودی دوبارہ وزیراعظم بنیں گے تو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار ہوگی ۔ پھر کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی پر آمادہ ہوگئے ہیں اور کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب ہے لیکن چند ہی روز بعد کشمیریوں پر انکشاف ہوا کہ ٹرمپ کی شہ پر ، عمران خان کے غلط اندازوں سے فائدہ اٹھا کر نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا۔ آزاد کشمیرکے لوگوں پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ 

چند روز جلسے جلوس کرکے عمران خان کی طرف سے انہیں تسلی دی گئی کہ وہ ساری دنیا میں ان کے سفیر بن کر طوفان برپا کردیں گے لیکن اپنی خفت مٹانے کے لئے اقوام متحدہ میں ایک جذباتی تقریر کرکے عمران خان اور ان کی ٹیم پھر سیاسی مخالفین کو لتاڑنے میں لگ گئی۔ چنانچہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کی صفوں میں ناقابلِ بیان غصے اور مایوسی نے جنم لیا۔ غصے کا یہ لاوا کب کا پک چکا ہے لیکن پاکستان کی محبت میں وہاں کی جینوئن قیادت اسے پھٹنے نہیں دے رہی حالانکہ اس وقت ہندوستان اور دیگر دشمن طاقتیں دن رات ایک کرکے اور بےتحاشہ وسائل صرف کرکے کوشش کررہی ہیں کہ یہ لاوا پھٹ جائے۔

اِس تناظر میں دیکھاجائے تو آزاد کشمیر کے اس مرتبہ کا الیکشن صرف ایک الیکشن نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے عمران خان نے اسے اپنی سیاست کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا ہے اور وہ سب حربے استعمال کئے جارہے ہیں جو 2018کے انتخابات میں استعمال کئے گئے یا پھر گلگت بلتستان کے الیکشن میں۔

پی ٹی آئی نے تو ایک اے ٹی ایم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں جو دھڑا دھڑ ضمیروں کے سودے کر رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے محافظین بھی وفاقی حکومت کا ہاتھ روکتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ آزادکشمیر کا الیکشن کمیشن سردار رضا کے الیکشن کمیشن جیسا تماشائی بنا ہواہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور کئی دیگر رہنما بھی پہلے سے خبردار کرچکے ہیں کہ آزادکشمیر میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہو رہی ہے اور ہم بھی ایسی تیاریاں دیکھ رہے ہیں۔

ہم ایسے قلم مزدور طالب علموں کی چیخ و پکار پر پہلے کسی نے دھیان دیا ہے اور نہ اب کوئی دیتا نظرآرہا ہے لیکن میں اپنا قومی فرض ادا کرتے ہوئے خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تو الیکشن شفاف ہوئے تو کشمیر کے محاذ پر ہونے والا نقصان کسی حد تک کم کیا جاسکے گا لیکن اگر 2018 کے پاکستانی انتخابات یا گلگت بلتستان کے عمل کو دہرایا گیا تو نہ صرف آزاد کشمیر میں پک جانے والا لاوا پھٹ جائے گا بلکہ یہ سلسلہ گلگت بلتستان تک دراز ہوسکتا ہےاور پاکستان کے دشمنوں کی غرض و غایت ہی گویا یہ ہے کہ کشمیر کے الیکشن کوسلیکشن میں بدل دیا جائے۔ باقی مرضی ہے،مرضی چلانے والوں کی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :